کالاباغ ڈیم - حقیقت کیا، فسانہ کیا؟ ( 22)

Jun 21, 2016

ظفر محمود

کالاباغ ڈیم کے بارے میں ایک اور واہمہ جسے بعض لوگ سچ تصور کرتے ہیں، یہ ہے کہ واپڈا نے آجر کی حیثیت سے اِس منصوبے کے بین الاقوامی کنسلٹنٹس سے مرضی کے نتائج حاصل کئے۔ یہ الزام آبی ماہرین، کنسلٹنٹس اور واپڈا کے قابلِ اعتبار ہونے کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس الزام کی بنیاد اُن لوگوں کی رائے ہے جو منصف ہونے کے معیار پر خود پورا نہیں اُترتے۔ڈیم کی تعمیر کیلئے عموماً پوسٹ گریجویٹ تعلیمی قابلیت اور کئی دہائیوں پر مشتمل تجربے کے حامل انجینئرز کا کنسلٹنٹ کے طور پر تقرر کیا جاتا ہے۔ کالاباغ ڈیم کے حوالے سے نیچے دیئے گئے ٹیبل میں واضح کیا گیا ہے کہ تاریخی طور پر کِن کنسلٹنٹس خصوصاًغیرملکی ماہرین نے اس منصوبے کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں تحقیقی مطالعات کئے:

کالاباغ ڈیم پراجیکٹ سٹڈیز/ رپورٹس
(سٹڈی رپورٹ‘ ایجنسی‘ سال)
ابتدائی رپورٹ (ٹپٹن اینڈ ہِل) 1953ئ‘ ابتدائی فزیبلیٹی رپورٹ (چیس ٹی مین) 1966ئ‘ مغربی پاکستان کے پانی اور بجلی کے بارے میں سٹڈی (ورلڈ بنک سٹڈی گروپ) 1967ئ‘ فزیبلیٹی رپورٹ (واپڈا/ ہارزا) 1972ئ‘ نظرثانی شدہ فزیبلیٹی رپورٹ (اے سی ای لمیٹڈ) 1975ئ‘ فزیبلیٹی رپورٹ کا جائزہ (بورڈ آف کنسلٹنٹس) 1975ئ‘ اپریزل رپورٹ (ورلڈ بنک) 1980ئ‘ پراجیکٹ پلاننگ رپورٹ (کالاباغ کنسلٹنٹس) 1984ئ‘ تفصیلی ڈیزائن (کالاباغ کنسلٹنٹس) 1985ئ‘ ڈیزائن ری فائنمنٹ اور ٹینڈر دستاویزات (کالاباغ کنسلٹنٹس) 1988ء
مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے نامور ماہرین نے کالاباغ ڈیم پراجیکٹ کے ڈیزائن پر نظرثانی کی۔ اِن ماہرین کی تفصیل درج ذیل ہے:
کالاباغ ڈیم پراجیکٹ۔ بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل پینل
-1 پراجیکٹ کا مجموعی ڈیزائن۔ 1983ء
پیرے لوندے (فرانس)‘ ڈاکٹر جی لومبارڈی (سوئٹزر لینڈ)‘ ڈاکٹر جیمز آئی شیرارڈ (امریکہ)‘ جون لووی سوئم (امریکہ)‘ ڈاکٹر کلاز ڈبلیو جون (جرمنی)‘ جون پرمیکین (امریکہ)
-2پراجیکٹ پر نظرثانی۔ مئی 1984ء
اصغر علی عابدی (پاکستان)‘ شیخ منظور احمد (پاکستان)‘ شاہنواز خان (پاکستان)
-3 نوشہرہ کی وادی میں سیلاب کے بارے میں جائزہ ۔ پہلاجائزہ جولائی 1987ئ‘ ڈاکٹر ڈنگ لیان ژن (چین) دوسرا جائزہ دسمبر 1987ء
ڈاکٹر جون ایف کینیڈی (امریکہ)‘ ڈاکٹر خالد محمود (امریکہ)‘ ڈاکٹر روڈنی وائٹ (برطانیہ)
کالاباغ ڈیم پراجیکٹ کے بارے میں ورلڈ بنک، حکومتِ پاکستان اور واپڈا کے ماہرین کی رپورٹس۔ (ورلڈ بنک رپورٹ نمبر‘ عنوان‘ ماہر‘ تاریخ اجرائ)
ڈبلیو بی آر1-۔ ہائیڈرالک ماڈلنگ کے بارے میں کالاباغ کنسلٹنٹس کی تجاویز کا جائزہ (پروفیسر ای ایف موسون یی) جون 1983ئ‘ ڈبلیو بی آر2-۔ ابتدائی فلڈ ہائیڈرالوجی کا جائزہ (ایف اے برٹی) مئی 1983ئ‘ ڈبلیو بی آر3-۔ کالاباغ ڈیم پراجیکٹ سٹڈی کا جائزہ (ٹی ایم 15 اور ٹی ایم 4) (ایف اے سام جل) جون 1983ئ‘ ڈبلیو بی آر4-۔ آبی ذخیرے میں مٹی بھرنے کے بارے میں ابتدائی رپورٹ کا جائزہ (ٹی ایم 12) (کے محمود) جون 1983ئ‘ ڈبلیو بی آر5-۔ کالاباغ ڈیم پراجیکٹ۔ ٹیکنیکل میمورنڈم 15 کا جائزہ (ڈی کنگ) جولائی 1983ئ‘ ڈبلیو بی آر6-۔ ہائیڈرالک ڈیزائن اور ہائیڈرالک سٹرکچرز کے ماڈل ٹیسٹ کی رپورٹ (جے ایچ ڈورنا) جولائی 1984ئ‘ ڈبلیو بی آر7-۔ کابینہ کمیٹی کی جانب سے اٹھائے گئے معاملات کا جائزہ (ایس ایس کرمانی‘ ورلڈ بنک) مارچ 1985ئ‘ ڈبلیو بی آر8-۔ سول ورکس کی مختلف کنٹریکٹ پیکجز میں تقسیم کا جائزہ (کے ایس سمتھ) جون 1985ئ‘ ڈبلیو بی آر9-۔ ازسرِنو آباد کاری کی تیاری۔ مشن رپورٹ (ایم ایم سرین) جولائی 1985ئ‘ ڈبلیو بی آر10-۔ مٹی بھرنے اور ہائیڈرالک کے مطالعات کاجائزہ مشن (ڈاکٹر کے محمود) نومبر 1985ء اور جنوری 1986ئ‘ ڈبلیو بی آر11-۔ سول ورکس کی مختلف کنٹریکٹ پیکجزمیں تقسیم کا جائزہ (بیرٹ کنسلٹنٹس) جولائی 1986ئ‘ ڈبلیو بی آر12-۔ پاور سٹیشن یونٹ بے کے ڈائنامک تجزیہ کا جائزہ (ایچ بولٹن سیڈ) مارچ 1987ئ‘ ڈبلیو بی آر13-۔ مٹی بھرنے کے بارے میں ریاضیاتی ماڈل سٹڈیز کا جائزہ (ڈاکٹر ڈنگ لیاژن) جولائی 1987ئ‘
ڈبلیو بی آر14-۔ دریا کی تہہ میں ریت کی پرتوں کے پانی میں شامل ہونے کی صلاحیت اور سیوالک کی بجری کی تہہ کے بارے میں کی گئی تحقیقات کا جائزہ (ایچ بولٹن سیڈ) جولائی 1987ئ‘ ڈبلیو بی آر15-۔ مٹی بھرنے کے بارے میں جائزہ لینے والے پینل کی رپورٹ (ڈاکٹر ایف جے کینیڈی‘ ڈاکٹر خالد محمود‘ ڈاکٹر ڈبلیو آر وائٹ) دسمبر 1987ئ‘ ڈبلیو اے پی1-۔ آبپاشی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مجوزہ کالاباغ ڈیم سے زیریں جانب پانی کے اخراج کے متبادل طریق واپڈا (ڈبلیو آر ایم ڈی) مارچ 1983ئ‘ ڈبلیو اے پی2-۔ ڈرافٹ ری سیٹلمنٹ ایکشن پلان (واپڈا) جون 1985ئ‘ ڈبلیو اے پی 3-۔ ڈیم کی تعمیر کے دوران اور بعدازاں آپریشن کے دوران آبپاشی کیلئے پانی کے اخراج کی صلاحیت (ڈی آر سی16-) واپڈا (ڈی آر سی) اگست 1985ئ‘ ڈبلیو اے پی4-۔ واپڈا/حکومتِ پاکستان کے لئے عالمی بنک کے کنسلٹنٹ کی ری سیٹلمنٹ رپورٹ (ڈاکٹر آرٹ ہنسن) اپریل 1985ء
اس بات کا ہمیشہ امکان موجود ہوتا ہے کہ مقامی انجینئرز بڑے منصوبوں کیلئے درکار تعلیمی قابلیت اور تجربہ کے حامل نہ ہوں، چنانچہ اِن منصوبوں کیلئے کنسلٹنٹ کا تقرر بین الاقوامی مسابقتی بولیInternational Competitive Bidding) کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی طور پر معروف یہ ماہرین منصوبے کے قابلِ عمل ہونے کے مطالعات (فزیبلیٹی) اور تفصیلی انجینئرنگ ڈیزائن کے دوران انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہیں، تاکہ اس ضمن میں غلطی کا کوئی امکان نہ رہے۔ پانی کے بڑے منصوبوں کا ڈیزائن بناتے وقت انجینئرز اور مشاورتی اداروں کی ساکھ دائو پر لگی ہوتی ہے، اِس لئے کوئی بھی ماہرکسی پراجیکٹ کے ڈیزائن کے حوالے سے معمولی خطرہ بھی مول نہیں لے سکتا۔ بڑے منصوبوں کیلئے جن مشاورتی اداروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، وہ اپنی ساکھ اور شہرت کے بارے میں غیرمعمولی طور پر محتاط ہوتے ہیں۔ وہ کسی ایسے عمل اور کام کی نہ تو سفارش کرتے ہیں اور نہ ہی منظوری دیتے ہیں جس سے اُنکی شہرت، پیشہ وارانہ اہلیت اور دیانتداری پر کوئی آنچ آئے۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں کالاباغ ڈیم منصوبہ سیاست کی نذر ہوگیا۔کنسلٹنٹس کے نتائج کا جائزہ لینے کیلئے محکمہ آبپاشی نے جن انجینئروں کی خدمات حاصل کیں ، وہ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے کوئی علم یا براہِ راست تجربہ نہیں رکھتے تھے اور اسی کمی کی بنا پر وہ کالاباغ ڈیم کی تیکنیکی تفصیلات پر سوال اٹھاتے رہتے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سارے معاملے کو انجینئرنگ کی مہارت یا تیکنیکی اعتبارسے زیرِ بحث نہیں لایا جاتا، بلکہ اسکے برعکس نہایت چالاکی سے کام لیتے ہوئے اِسے ایک سیاسی مسئلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس میں وفاقی حکومت کے ادارے یعنی واپڈا کو ایک صوبے کیخلاف لاکھڑا کیا جاتا ہے۔ بحث کے دوران اُن ماہرین کی پیشہ وارانہ اہلیت کو بڑی آسانی کے ساتھ نظرانداز کر دیا جاتا ہے جنہوں نے کالاباغ ڈیم کا انجینئرنگ ڈیزائن تیار کیا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کالاباغ ڈیم کنسلٹنٹس کی رپورٹ پر اختلافی مشاہدات اور نتائج ایسے انجینئروں کی جانب سے سامنے آئے، جنہوں نے اپنی ساری زندگی آبپاشی، تعمیرات یا شاہرات کے صوبائی محکموں میں کام کرتے ہوئے گزار دی ۔ اگر پشاور کی وادی میں اراضی کو کسی طرح کا خطرہ لاحق ہوتا یا نوشہرہ کو حقیقی طور پر سیلاب کے خطرے کا سامنا ہوتا، تو اس بارے میں واپڈا کیسے اُنکے نتائج پر اثر انداز ہوسکتا تھا۔ اور ویسے بھی کوئی ایسا کرنے کے بارے میں سوچتا ہی کیوں؟
حقیقت یہ ہے کہ نہ ہی واپڈا کی ایسی کوئی خواہش تھی اور نہ ہی واپڈا نے کنسلٹنٹس کے نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔
محترم قارئین! اِس دلدل سے باہر نکلنے کا راستہ ایک مختلف راستہ اختیار کرنے میں ہے۔ واپڈا اس منصوبے کے مخالفین کے خدشات کو اِس طرح دور کرسکتا ہے کہ وہ متعلقہ صوبائی حکومتوں سے یہ استدعا کرے کہ وہ اپنی منشا کے مطابق غیرجانبدار ماہرین کا تقرر کریں، جو کالاباغ ڈیم کے بارے میں پہلے سے کئے گئے مطالعات کا آڈٹ کریں اور اُنکے نتائج کے درست یا غلط ہونے کا تعین کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسی کسی پیشکش کو قبول کیا جاتا ہے تو وفاقی حکومت کی اجازت سے واپڈا غیرجانبدار ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کیلئے بخوشی فنڈ فراہم کرے گا۔

مزیدخبریں