ادب کی خدمت میں ہزارہا ادیب، شاعر، افسانہ نگار، ایڈیٹرز، فیچر رائٹرز، مصنف وغیرہ اپنی محنت شاقہ سے برسرپیکار ہیں اگر جرائد ورسائل کے نام گنوانے پہ آئیں تو ابن الوقت بھی حیران ہوجائے کہ ادب نے کتنی ترقی کی ہے، بے شمار ایسی کرنیں ہیں جن کی روشنی اپنے مخصوص علاقوں سے باہر نہیں نکل سکیں اور لامحدود ایسی اور شخصیات ہیں جو خاموش طبیعت اور پس پردہ رہنے کی وجہ سے آئینے پہ اپنا عکس بھی نہیں چھوڑتےں، ان کےلئے عرض ہے کہ اپنی خوبیوں اور خداداد صلاحیتوں کو اجاگر کریں اور اپنے ہی جیسی ادب نواز، ادب شناس شخصیات کو ڈھونڈ کر ان کی خوبیوں کو نکھاریں، تراشیں اور ادب کا گوہرنامدار بنائیں اگر وہ خود کو اپنی ذات کے سیپ میں ہی بندرکھیں گے تو ان لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی جن کو ادب کا راستہ تو مل جاتاہے مگر منزل کےلئے بھٹک بھٹک کر وہ کہیں ریت میں ریت اور پانی میں پانی ہوجاتے ہیں، ہمارے گِردا گرد بے شمار ادب شہر ، ادب جزیرے، ادب کے ریگستان، ادب ساحل اور ادب سمندرہیں۔ ہم قلم دوست لوگوں کو جہاں ٹمٹاتی لو محسوس ہوتی ہے ہم وہاں اپنی ذات کی کرنیں روشن سے روش تر کرنے کےلئے پڑاﺅ کرتے ہیں پھر وہیں کے ہوجاتے ہیں،کیونکہ آگے جانے کی سکت نہیں رہتی اور راستے بھی پاﺅں کی دھول بن جاتے ہیں۔
ایسی شخصیات جو دوسروں کےلئے کام کرکے ان کو ایک مقام دلاتی ہیں ہمارے ادب معاشرے کا زیور ہیں ان میں ایک نام ممتاز احمد شیخ کا ہے۔ دھیما مزاج، نرم خو، خوش لباس، باذوق شخصیت کی صلاحیتوں کو اظہرمن الشمس کرنے کےلئے ان کی قلم اور کاغذ سے محبت نے اہم کردار ادا کیا۔ ادب کے اس درویش نے اپنے قلم کو اپنی ذات سے آشنائی کرانے کےلئے استعمال نہیں کیا بلکہ گوشہ ادب کے ستاروں کو ماہر فلکیات کی طرح سے ایک ایک کرکے شہپرِ ادب پہ ٹانکتے گئے۔جس طرح دلہن کے سہاگ کے دوپٹے پہ گوٹہ کناری اور ستارے ٹانکے جاتے ہیں اس میں بوڑھی نانیوں دادیوں کے کانپتے ہاتھوں کے مضبوط ٹانکے اور دوشیزاﺅں کے جذبات اور اٹھکیلیوں کی گرہیں انہیں مضبوط کرتی اور خوبصورت بناتی ہیں اسی طرح سے ممتاز صاحب کا قلم ادب کو سہاگ کا دوپٹہ اوڑھانے کےلئے انتھک محنت کرتاہے، لوح2014ءسے ہمارے ہاتھوں میں آرہا ہے ادب کا بہترین سہ ماہی شمارہ اپنی ضخامت، خوبصورت ٹائٹل، بہترین کاغذ کے علاوہ افسانوں، مقالات اور شاعری میں عاجزانہ ، درویشانہ اور پریت مگر کی کہانیوں سے مزین فروغ ادب کےلئے سپہ سالار کام کررہاہے، لوح کی حُسنِ ترتیب دیکھ کر ہی آشکار ہوجاتا ہے کہ ممتازصاحب کی شخصیت
بظاہر خوش لباسی ذوق ٹھہری
کوئی درویش اندر ناچتا ہے
لوح میں ادب کی ہر صنف کو جس طرح سے خوبصورت عنوان دیئے گئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں جس طرح ممتاز شیخ صاحب کی اپنی گفتگو” خامہ انگشتِ بدنداں ہیں اسے کیا کہیے“ حمدیہ کلام” شامِ شہرحول میں شمعیں جلادیتاہے تو“ نعت رسول مقبول کےلئے” کرم اے شہ عرب وعجم“ تکریمِ رفتگاں اجالتی ہے ”کوچہ وقریہ میں علی تنہاکی منوبھائی کےلئے قلم نوائی“ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں میں سلمیٰ اعوان آپا کی تحریر۔ اس سے آگے دیکھئے افسانوں میںجیسے گیت وپریت بُن رہے ہیں۔ ”سن تو سہی جہاں میں تیرا افسانہ ہے کیا“گوشہ کشور ناہید بھی کمال موتیوں سا پرویا ہے” پھرنظم لکھے تجھے ایسے کے زمانے واہوں“ میں کتنے دیپک جلائے ہیں۔کافیاں، طنزومزاح، تراجم، فلم وموسیقی گویا کہ کائنات ادب کے جتنے رنگ ہیں ان رنگوں کے جتنے بھی پھول ہیں ان پھولوں کی جتنی بھی خوشبو ہے وہ تمام کی تمام موج کے ذریعے پھیلا رہے ہےں۔
ایک محبت بھرا خط لوح کے نام جو موصول ہوا لکھتے ہیںلوح کا تیسرا شمارہ پیش نظر، کیا لکھوں ہندی کے شاعر وشنیت کمار کے لفظوں کا سہارا لوں تو بس یہی کہوں گا کہ یہاں تک آتے آتے سارے الفاظ گم ہوجاتے ہیں، امید کی خستہ حال عمارتوں کے درمیان اچانک روشنی کی ایک کرن نظرآئی، پہلے ان عمارتوں میں ویرانی کاسایہ تھا ایک درویش ہوا کرتا تھا، ڈفلی بجاتا، جو گنگنایا کرتا تھا، کوئی ویرانی سی ویرانی ہے، دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا، دشت اور درویش کی کہانی کو کسی اور دن کےلئے رکھتے ہیں ابھی اردو کی باتیں کرتے ہیں ایسے لوگ تعدادمیں زیادہ تھے جو اردو کے ختم ہونے کا ماتم کرتے تھے یہاں ہندوستان میں برا حال تھا اردو کا ادبی رسائل تھے لیکن کوئی رسالہ اپنی چمک کب بکھیرے گا یہ کہنا مشکل تو نکلتے ہی تھے بند ہونے کےلئے پھر ایسا وقت بھی آیا کہ اچھے اچھے رسائل تاریخ کا حصہ بن کر اوجھل ہوگئے، آپ تو شاہ جنات نکلے، جادوئی چراغ ہاتھوں میں لئے میں نے یہ جنوں اور دیوانگی کسی رسالہ کو لے کر کم دیکھی ہے جو آپ میں دیکھی آپ نے رسالہ کیا نکالا ہندوستان سے پاکستان تک قاری کی ایک فوج جمع ہوگئی، بلکہ یہ سلسلہ پھیلتا ہوا ساری دنیا تک چلا گیا آپ تو جادو گر نکلے صاحب اب یہی شمارہ دیکھئے، مشمولات میں اردو کا کون سا بڑا ادیب سے جو شامل نہیں پرانی نسل سے لے کر نئی نسل کی نمائندگی کےلئے لوح نے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں، رشید امجد سے لے کر اقبال خورشید تک فاروقی صاحب سے لے کر ہردبستان فکر کے ادیب یہاںموجود ہیں اور لوح کا ہرصفحہ ایسا کہ بس مطالعہ کرتے جائے آپ نے نقوش اور نگار کے پرانے دنوںکو زندہ کردیاہے میری دعاہے کہ یہ رسالہ اور ترقی کرے، ایک ایسی مثال قائم ہو کہ آنے والی نسلیں لوح پر اسی طرح فخر کرسکیں جیسے آج نگار اور نقوش جیسے رسائل کو یاد کرتے ہیں۔
لوح جیسے شاہکار رسالے کا سہرا جن کے سر ہے اسی ممتاز شیخ صاحب کے متعلق بھی کچھ بتاتے چلیںان کا تعلق لاہور سے سوکلومیٹر دور ایک قصبے واربرٹن کے خوشحال گھرانے سے ہے بزنس مین کی حیثیت سے تعلیم سے فراغت کے بعد اپنا ایک مقام بنایا، گورنمنٹ کالج کا طالبعلم ہونے پر فخر کرتے ہیں اور اسے تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ تاریخی تعلیمی ورثے کا نام دیتے ہیں، شہرہ آفاق شخصیات کی شاگردی میںجو ادب کا بیج گورنمنٹ کالج میں بویاگیا تھا آج ایک پھل دار اور سایہ دار شجر بن چکاہے آج نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ادب کے گمشدہ یادوںکو بھی منظر عام پر لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔