”بے نظیر“ بے نظیر تھی

Jun 21, 2018

فرزانہ چودھری
پاکستان پیپلزپارٹی کی جدوجہد کی کہانی گو بڑی ولولہ انگیز اور جوش و جذبے سے عبارت ہے۔ اس کہانی میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو صاحبہ کا بہت بڑا، جامع اور بھرپور کردار ہے۔ پیپلزپارٹی کی تحریک کے 12سالوں میں جن قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ انہوں نے کیا ہے شاید ہی کوئی اور خاتون دنیا کی تاریخ میں کر سکی ہو گی۔یہ باتیںمعروف سےنئرسیاستدان سابق صدر اور جنرل سےکرٹری پاکستان پےپلز پارٹی پنجاب، سابق صوبائی وزےر صحت رانا شوکت محمود نے بےنظےر کی سالگرہ پر بتائیں”
نہوں نے کہا بے نظیر بھٹو برما کی سومی اور نیلسن منڈیلہ سے بھی بڑی لیڈر تھیں۔ میری نظر میں سال 1988ءکو پاکستان کی تاریخ میں کلیدی حیثیت حاصل تھی۔1988ءمیں بے نظیر بھٹو صاحبہ 12برس کے طویل عرصے کی قومی جدوجہد اور پارٹی کارکنوں کی قربانیوں کے بعد وزیراعظم بنی تھیں۔ اسی زمانے میں میاں نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے اور مرکز کی پنجاب سے محاذ آرائی شروع ہو گئی۔ مرکز اور پنجاب کے مابین محاذ آرائی کے نتیجے میں حالات بتدریج خراب ہو کر اس نہج تک جا پہنچے کہ پونےدو سالوں میں نوازشریف بطور وزیراعلیٰ ایک مرتبہ بھی وزیراعظم کو لینے ایئرپورٹ نہیں گئے۔ نہ ہی وہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ میں نے نوازشریف کو ایک مشترکہ دوست کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ میں ان سے ملاقات کا خواہاں ہوں تو مجھے جواباً پیغام موصول ہوا کہ میں جب چاہوں پنجاب اسمبلی یا ان کے گھر ملاقات کر سکتا ہوں۔ ہماری ملاقات ہوئی جس میں صرف میں، میاں نوزشریف اور میاں شہبازشریف تھے۔ اس ملاقات میں، میں نے میاں نوازشریف کو بے نظیر سے صلح کرنے پر آمادہ کر لیا۔ مرکز اور پنجاب کو 7کلب ایوان وزیراعلیٰ میں دعوت دی جو انہوں نے قبول کی۔ یہ ملاقات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ نوازشریف نے بے نظیر کو بہن کہا اور ان کو تحائف بھی پیش کئے اور کہا کہ وہ بہر صورت ان کا احترام کریں گے۔ مرکز اور پنجاب کے مابین اتحاد ویکجہتی اور باہمی احترام کو فروغ دیا جائے گا۔بے نظیر بھٹو ہمارے محبوب لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی تھیں۔ وہ اس ملک کی دوبار وزیراعظم بنیں۔ اللہ نے بھٹو کو سرخرو کیا اور بے نظیر بھٹو پہلی بار وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ بھٹو دوبارہ وزیراعظم بن گئے۔ یہ اسی زمین پر پارٹی کارکنان عظیم الشان فتح تھی جس میں بھٹو صاحب کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔
تاریخ اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی کہ بے نظیر بھٹو غاصبوں، آمروں اور فوجی جرنیلوں کیلئے پریشانی کا باعث بن گئی تھیں جن کی نیندیں حرام ہو گئی تھیں ان غاصبوں، آمروں اور جابر حکمرانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے چیتے کا جگر اور شاہین کی جرات و قوت کی ضرورت تھیں، دو تنہا عورتوں بے نظیر اور نصرت بھٹو کا جبر و تشدد کے سامنے مردانہ وار کھڑے ہونا اور ظالموں سے ٹکر لینا معمولی بات نہیں تھی ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی جرا¿ت ، بہادری اور اعلیٰ کردار کو عملی صلاحیتوں اور شعور نے ان کو غریب اور کچلے ہوئے لوگوں کے وجدان کا حصہ بنا دیا تھا۔ حالانکہ مارشل لاءاور ضیاءالحق کا خیال تھا کہ بھٹو صاحب کی جان بچانے کیلئے نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو سمجھوتہ کرکے منت سماجت کریں گی لیکن انہوں نے غریب عوام اور کچلے ہوئے لوگوں کی پارٹی کا بھرم رکھا اور آج غریب طبقات فخر سے سر اٹھا کر چلتے ہیں۔

مزیدخبریں