آج کے دن ایک ایسی بھلی روح اس دنیا میں آئی جو اپنے ازل سے آگاہ تھی کہ کیسے اُس نے اپنے رب کی مسحور کن اور پاکیزہ آواز پر بے شک کہا تھا وہ اس دھرتی سے اپنے تعلق کی حقیقت کو جانتی تھی کہ یہ تو آدم کی تخلیق سے قبل کی بات ہے اُسے اس بات پر کوئی شک نہ تھا کہ ہم سب ایک تھے اور وہیں سے ہمارا رشتہ شروع ہوتا ہے۔ اس دنیا میں آنے پر اُس کا استقبال ایک توانا روح والی دبنگ شخصیت نے کیا اس دنیا میں تو اُن کا رشتہ باپ اور بیٹی کا تھا مگر یقینا وہاں پر اُن کی روحین باہم مدغم تھیں۔ باپ نے بیٹی کو دیکھتے ہی کہا کہ گلابوں کی دھرتی پر پیدا ہونے والی کی رنگت بھی گلابی ہے لہٰذا اُس نے اُسے پنکی کا نام پیار سے دیا مگر باپ سیاسی قلندر تھا کیسے اپنے وجدان سے بیٹی کا مستقبل نہ دیکھتا لہٰذا بیٹی کے مستقبل کے کردار کو دیکھتے ہوئے اُس کا نام ’’بے نظیر‘‘ رکھا۔ اس طرح اُس کی کائنات اور وارث قرار پانے والی بیٹی حکمت اور خوبصورتی کا حسین امتزاج تھی۔
یوں ذوالفقار علی بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو نے اپنے بے نظیر بیٹی کی پرورش کا آغاز کیا۔ خاندان میں بچیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا تھا لہٰذا بے نظیر بھٹو کی تعلیم کیلئے ایسی روایات سے بغاوت کرتے ہوئے والدین نے روشن خیالی کا راستہ اپنایا۔ بے نظیر بھٹو ذہین تو بہت تھیں مگر انتہائی حساس بھی تھیں کسی کی بندوق سے مارے جانے والے کبوتر کی موت نے بھی اُنھیں بہت افسردہ کر دیا تووالدہ نے انھیں انسانی تاریخ کی سب سے دلیر خاتون جناب زینب ؓ کے کردار کا سبق دیا جو ہمیشہ بے نظیر بھٹو کیلئے مینار نور بن گیا اور اس لا زوال کردار کی چھاپ بی بی کی روح پر لگ گئی۔
جس عمر میں بچیاں پریوں کی کہانیاں سنتی ہیںبے نظیر ان کرداروں سے اپنی روح کو سیراب کرنے لگی۔ والد نے انھیں دنیا کی بہترین دوسگاہوں میں علم کے حصول کیلئے بھیجا اور اس کے ساتھ ساتھ خاص تربیت بھی جاری رکھی۔ باپ اپنی بیٹی کو بے نظیر دیکھنا چاہتا تھا اور بیٹی صرف اپنے باپ کے خوابوں کی تکمیل چاہتی تھی۔ باپ عوام الناس سے عشق کرتا رہا۔ کہ یہی رب کائنات کا حکم ہے کہ ’’اگر تم اپنے خالق سے پیا رکرتے ہو تو پہلے مخلوق سے پیار کرو۔‘‘۔
بھٹو صاحب جانتے تھے کہ معاشرتی و معاشی مساوات کے لئے عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنانا ضروری ہے اور اُنھیں جہل اور ظلم کی قوتوں سے نجات دلانا لازم ہے۔
ان گنت صدیوں کے تاریک بہمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
بس بھٹو صاحب کی نظر اس طرف لوٹ جاتی تھی اور کوئی حسن اُنھیں اپنی طرف متوجہ نہ کرپاتا۔ وہ وقت آن پہنچا جس کیلئے شائد پنکی کو بے نظیر بنایا گیا۔ باپ تاریخ انسانی کے عین مطابق عامیوں کی حمایت میں خواص کی طرف سے باغی قرار پایا اور سزا بھی وہی مقدر ٹھہری کہ …؎
موسم آیا تو نخل دار پہ میر
سر منصور ہی کا بار آیا
مگر اس سے قبل ہی باپ اپنے عشق لازوال کی وراثت قید خانہ سے اپنی بے نظیر بیٹی کو اُس کی 25ویں سالگرہ کے موقع پر منتقل کر گیا۔’’آج میں تمہارے ہاتھ میں عوام کا ہاتھ دیتا ہوں‘‘ اس طرح بے نظیر بھٹو کو موقع ہی نہ مل سکا کہ وہ اپنی زندگی کا انتخاب کرتی بلکہ اس زندگی نے اُس کا انتخاب کر لیا اور جدوجہد پکار اُٹھی کہ ’’چن لیا میں نے تمہیں سارا جہاں رہنے دیا۔‘‘ لہٰذا اُس عمر میں جب لڑکیاں شہزادوں کے خواب دیکھتی ہیں بے نظیر بھٹو کی یادیں زندانوں میں محکوموں کے مساوی حقوق کی جدوجہد کو حکمت عملی بنانے میں یکسو رہیں۔ ہتھکڑیاں اُس کے ہاتھوں سے عوام کا ہاتھ نہ چھڑوا سکیں کہ…؎
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں
کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیں
عوام سے عشق کا علم تھامے بے نظیر بھٹو قریہ قریہ نکلی جدوجہد جاری رہی کبھی میدانوں میں کبھی ایوانوں میں کبھی کٹہروں میں کبھی درباروں میں لیکن کوئی آزمائش حوصلوں کو متزلزل نہ کر سکی سب سے چھوٹے بھائی کو سازشوں نے قتل کیا تو اُسے اپنی زمین میں دفن کرتے وقت شائد یہی عہد کرتی رہی :
آئو یہ زمین کھودیں
اور اس میں اپنے دل بودیں
کریں سیراب اس کو آرزئوں کے پسینوں سے
کہ اس بے رنگ جینے سے نہ میں خوش ہوں نہ تم خوش ہو
نہ ہم خوش ہیں
کوئی غم آ گے بڑھنے سے روک نہ سکا جب ہر سو ہو کا عالم تھا لوگ حق بات کہنے سے ڈرتے تھے اُس وقت لشکر یزید میں اک کنیز کربلا ۔ مظلوموں کی آواز بن کر ظالموں کو للکار رہی تھی کہ میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے۔ جدوجہد دریائوں کی مانند آ گے ہی آگے بڑھتی رہی ایک دشمن ختم ہوا تو اپنے بہت سے حواری بصورت وارث چھوڑ گیا۔ کبھی مکمل اقتدار منتقل نہ ہوا کہ خوف رہا کہ کہیں عوام طاقت کا سرچشمہ بن کر مکمل معاشرتی و معاشی مسوات کا نام نہ لے آئیں۔ دختر مشرق کو سازشوں میں گھیرا جاتامگر وہ اپنی دھن میں پکی عوام کے عشق میں مست لوگوں کو روزگار کی صورت میں روٹی کپڑا اور مکان دیتی رہی۔ علم کی شمعیں جلاتی رہی۔ صحت کی نعمت عوام کے دروازوں تک پہنچاتی رہی۔ روشنی گھر گھر پہنچتی، لوگ گاتے رہے کہ میرے گائوں میں بجلی آئی ہے۔
مگر جہل والے تو ہمیشہ سے روشنی سے ڈرتے ہیں لہٰذا پھر سازش گھڑی اور نصرت کے آنکھوں کے نور مرتضیٰ کے خون کی ہولی کھیلی گئی اور بھٹو کو قتل کرکے دوسرے بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کا گھنائونا کھیل کھیلا گیا۔ ماں اور بہن کے ہمراہ گھبرو جوان بھائی کا لاشہ دفنایا اور دل کا غم یوں بیان کیا کہ ’’آج گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں ہم تین عورتیں تھیں اور ہمارے ساتھ تین قبریں تھیں۔ 17سالوں میں بھٹو خاندان کے تینوں مرد عوام جمہوریت اور مساوات پر قربان ہو گئے۔‘‘ ان سب کے باوجود جدوجہد جاری رہی۔ دلیر اور غیرت مند خاوند کی جوانی کے 12سال جیل میں گزر گئے۔ بھٹو کی بیٹی اور بلاول کی ماں بچوں کو ساتھ لئے ایک شہر سے دوسرے شہر عدالتوں اور کٹہروں میں پیش ہوتی رہی۔
آج بھٹو کے قاتل کے وارث جب بھٹو کے کارناموں کا ورد کرتے ہیں تو سمجھ آتی ہے کہ بے نظیر جدوجہد کا ثمر کیا ہوتا ہے۔
جب بھٹو کی بیٹی کو شہر شہر کٹہروں میں پیش کرنے والوں کی چیخیں بلند ہوتی ہیں کہ ہائے کسی کی بیٹی کو بیٹی سمجھو تو مکافات عمل کا مطلب اور تاریخ کی سچائی سمجھ میں آتی ہے۔ آج بے نظیر بھٹو کے بدترین مخالفین جب بے نظیر بھٹو کے مشن کی تکمیل کا عہد کرتے ہیں تاکہ اُن کا رپنا قد بڑھ سکے تو بے نظیر جدوجہد کی حقیقت کا ادراک ہوتا ہے۔
بھٹو کی بے نظیر بیٹی آخری سانس تک ملک کے بلاولوں، بختاوروں اور آصفائوں کیلئے جدوجہد کرتی رہی اور اپنا آج ان کے کل پر قربان کرتی رہی کہ اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں لیکن بی بی کی زندگی کا مقصد تو اوروں کے کام آنا تھا۔
بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی عوام سے عشق میں قربان کر دی اور آج بھی قوم کے بچوں کیلئے سائبان ہے کیا آپ کو بھٹو کی بے نظیر بیٹی کی آواز سنائی دے رہی ہے کہ
میرے قاتل یہ سمجھے کہ میں مر گئی
میں ہر عورت میں بے نظیر زندہ کر گئی
اب بلاول میں نے تم کو سونپا ہے
یہ میرا لال ہے وارث شہداء ہے
رکھنا خیال ، ذرا سوچنا
٭…٭…٭
وہ لڑکی لال قلندر تھی
Jun 21, 2019