اسلم کمال
ملک کے معروف مصور،شاعر ،ادیب اورسفرنامہ نگار اسلم کمال (صدارتی تمغہ حسن کار کردگی ) میںاپنی اہلیہ ،صاحبزاد ے اور پوتوں کے ساتھ عمرہ کی سعادت حاصل کی ، اب تک وہ کئی بار ارض مقدس کا سفر کر چکے ہیں ، ذیل میں انھوں نے اپنے پہلے عمرہ پر دلی کیفیات کو رقم کیا ۔
قارئین! پاکستان آرٹس سوسائٹی دوحہ، قطر کے توسط سے راقم1987ء میں حکومت قطر کے محکمہ اطلاعات اور فائن آرٹ کا سرکاری مہمان تھا۔ دوحہ شیرٹین ہوٹل کا معمار یقینا جنت، بہشت اور فردوس بریں کے رومانوی تصوّرات سے خوب بہرہ ور تھا۔ اس ہوٹل شیرٹین میں راقم کی مصورانہ خطاطی کی پندرہ روزہ نمائش ہوئی۔ ہر روز پہلے روز سے زیادہ اہل نظر نمائش میں آتے، راقم سے مکالمہ کرتے اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار فرماتے تھے۔ ان میں محکمہ اطلاعات و فائن آرٹ کے اہل علم و فن بھی اور دوحہ میں دیگر ممالک کے ڈوپلومیٹ بھی ہوتے تھے۔ ذرائع ابلاغ نے زبردست کوریج دی۔ نمائش کے اختتام پر میرے اعلیٰ میزبانوں نے پوچھا کہ عمرہ کرنے کی میری خواہش ہو تو یہاں سے یہ بآسانی اہتمام ہو سکتا ہے۔ راقم نے فوراً اپنے وسیع و عریض دل کے کونوں کھدروں تکک نظر دوڑائی۔ مگر مایوسی میں سخت شرمندہ ہوا کہ عمرہ کی کوئی خواہش اس خانہ خراب دل میں اب تک کیوں نہیں تھی۔ راقم نے بصد ندامت یہ پاکیزہ آفر مسترد کرتے ہوئے اب اپنے دل میں یہ پکا ارادہ باندھ لیا کہ آئندہ ایسا موقعہ ملنے پر یہ سعادت ضرور حاصل کروں گا۔ چنانچہ کوئی تین چار ماہ بعد عرب امارات فائونڈیشن، ابوظہبی میں میری مصوری کی نمائش کے آغاز پر ہی ایک پاکستانی بینک نے شوفر ڈرون کار کی سہولت کے ساتھ عمرہ کروانے کی دعوت دے دی۔ اس شوفر ڈرون کار کا استعمال راقم نے ابو ظہبی سے شعوری ویزہ وغیرہ اور عمرہ کے لئے دیگر ضروری امور کی تیاری میں کرنے کے بعد یہ سہولت بینکک کو دلی شکریے کے ساتھ اس اپنی تمنا کے تحت واپس کر دی۔ کہ اب آگے سعودی عرب میں سارے مراحل خود اپنی اوقات اور بساط کے مطابق طے کروں گا۔ جدہ شہر کا نام میں بچپن سے پڑھتا اور سنتا آیا ہوں۔ میں وہاں ائرپورٹ پر اترتے ہی جو بھی ملے گا۔ اس پر سلامتی بھیج کر اس سے پوچھ لوں گا۔ کہ اے اس سرزمین کے خوش نصیب! اس کائنات کے خالق مالک اور حاکم کا گھر اس الارض پر ایک شہر ہے جس کا نام آسمان سے لفظ بہ لفظ اتری ہوئی کتابوں میں ام القریٰ بکہ اور مکہ ہے۔ وہ شہر اس شہر جدہ سے کتنی دور ہے؟ اور جب مکہ پہنچ جائوں گا تو وہاں جو بھی پہلے ملے گا۔ اس سے آگے بڑھ کر پوچھ لوں گا۔ سلامتی ہو تم پر بھائی! اس مکہ شہر میں تمام جہانوں کے مالک خالق اور حاکم کہ سب کی سب تعریف جس کے لئے ہے جو بڑا مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ جو روز حساب کا مالک ہے اور اے بھائی! ہم سب کے سب اس کی عبادت کرتے اور بس اسی سے سب طرح کی مدد مانگتے ہیں۔ اس کا گھر اس مکہ شہر کے کونسے محلے میں یا کس کوچے کی کونسی گلی میں ہے؟ مجھے بس راستہ بتا دو آگے میں لبیک اللھم لبیک کہتا ہوا سر کے بل وہاں جا پہنچوں گا۔ اور پھر واقعی کچھ لمحوں بعد میں مسجد حرام میں سے گزرتا ہوا مطاف میں داخل ہوگیا۔ طواف کرتے ہوئے ہر چکر کے شروع میں حجرِ اسود کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا تھا۔ پھر اس سیاہ پوش گھر کو دیکھتے ہوئے اپنے آپ پر ایک نظر ڈالتا تھا کبھی اس زمین کو اور کبھی اس کے اوپر آسمان کو دیکھتا تھا اور پھر اپنے آپ پر رشک کرتا تھا کہ اچانک میں چونک پڑا کہ یہ کیا ہوگیا کہ یہاں مطاف میں طواف کرتے میری طرح کے لوگوں نے اپنے احرام کی بالائی چادر سے اپنا دایاں کاندھا باہر رکھا ہوا ہے۔ جبکہ میں نے اپنا بایاں کاندھا عریاں کیا ہوا ہے۔ یہ کیا ، کیا ہوا ہے میں نے ؟ پس میں نے اپنی اس کوتاہی پر ندامت سے نظریں جھکا کر اپنا بایاں کاندھا ڈھانپ کر دایاں کاندھا عریاں کرلیا۔ یوں میرا کرنا تھا کہ اپنی اس تصحیح پر میرے دل کا خالی ظرف ایک ناقابل بیان تشکر سے لبالب بھر گیا۔ گویا اس گھر کے مالک نے یہاں پر میری حاضری قبول فرما لی ہے۔۔۔