اسلام آباد (آ ئی این پی)سپریم کورٹ کے سینئر جج نے ریمارکس دیے ہیں کہ زیادہ تر پولیس اہلکار رات کو ڈکیتیاں کرتے ہیں، پورے ملک میں پولیس کا نظام فلاپ ہوچکا ہے، پولیس نام کی کوئی چیز نہیں، ملک میں ڈکیتیاں ہو رہی ہیں، لوگ گلے کاٹ رہے ہیں پولیس کہاں ہے۔ پنجاب کے ٹریفک وارڈنز کی تنخواہوں سے متعلق کیس میں جسٹس گلزاراحمد نے پنجاب کے سیکرٹری خزانہ اور آئی جی پر اظہار برہمی کیا۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پورے ملک میں پولیس کا نظام فلاپ ہوچکا ہے، ملک میں پولیس نام کی کوئی چیز نہیں، پولیس آخر ایسا کیا کر رہی ہے جو تنخواہ بڑھائی جائے؟، سرکاری افسروں دفاتر میں بیٹھ کر حرام کھا رہے ہیں، بھاری تنخواہیں لیکر بھی دو نمبریاں کی جاتی ہیں، صرف اس بات کی فکر ہے کہ اپنے الا ئونس کیسے بڑھانا ہیں، سب نہیں زیادہ تر پولیس اہلکار رات کو ڈکیتیاں کرتے ہیں، پولیس اور سرکاری افسر تنخواہ الگ لیتے ہیں اور عوام سے الگ لیتے ہیں۔سیکرٹری خزانہ کے اپنے بیان سے مکرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سیکرٹری خزانہ پنجاب کو شاید پتا ہی نہیں انکا کام کیا ہے، آپ کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کھڑے کھڑے ہی بات سے مکر گئے، پورا صوبہ پنجاب کا خزانہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ کو کچھ کام کا پتا ہی نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ جس کو دل کرے جتنا دل کرے آپ دیدیں، آپ صرف دفتر میں بیٹھ کر اپنے پیسے بنانے کی سوچتے ہیں۔صوبائی سیکرٹری خزانہ نے جواب جمع کرایا کہ ٹریفک وارڈنز کی منجمد ہونے والی اضافی بنیادی تنخواہ بحال کر رہے ہیں، اضافی بنیادی تنخواہ نہیں صرف منجمد ڈیلی الانس بحال ہوگا۔ ٹریفک وارڈنز کے وکیل نے کہا کہ تنخواہ بحال ہوجائے تو مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا۔عدالت نے سماعت دو ہفتے کیلئے ملتوی کرتے ہوئے سرکاری وکیل کو مزید تیاری کیساتھ پیش ہونے کی ہدایت کردی۔