چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے شوگر ملز مالکان کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے حکم امتناع بھی ختم کردیا ہے۔عدالت نے شوگر انکوائری رپورٹ پر متعلقہ اداروں کو کارروائی کی بھی اجازت دے دی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کا چینی کیس پر اختیارات شہزاد اکبر کو تفویض کرنا درست نہیں، وفاقی حکومت اپنے اختیارات کسی کو تفویض نہیں کرسکتی۔فیصلیکے مطابق نیب آرڈیننس کے تحت وفاقی حکومت کیس نیب کو بھیج سکتی ہے جب کہ چینی انکوائری کمیشن کی تشکیل بھی درست ہے۔ یہ احکامات مختصر فیصلے کے ہیں۔ عدالت نے سماعت کے دوران فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
اس کیس میں دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل خالد محمود خان نے آئین کے آرٹیکل 9 کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 9 ہر شہری کو زندگی کا بنیادی حق دیتا ہے، شہری کو زندگی کا تحفظ فراہم کرنے سے مراد اس کی خوراک کی ضروریات پوری کرنا بھی ہے، شہریوں کو زندگی کا یہ حق مہیا کرنا صرف صوبائی نہیں، وفاقی حکومت کا بھی کام ہے۔
یہ دلیل نہایت دلچسپ ہے اٹارنی جنرل کی طرف سے آرٹیکل 9 کی تشریح کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہریوں کی خوراک کی ضروریات پوری کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یقیناً ایسا ہے آئین کی اس شق اور اٹارنی جنرل کی اس تشریح کے بعد اس شق پر عملدرآمد لازم ہے اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے شہریوں کو مناسب قیمتوں پر اشیاء خوردونوش کی فراہمی بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ خوراک کی ضروریات کو تحفظ فراہم کرنا ہے تو ان تمام چیزوں کی مناسب قیمتوں پر بلاتعطل فراہمی بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت کی طرف سے شوگر ملز مالکان کے خلاف عدالت میں یہ دلیل دی جاتی ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے نکل گئی ہیں تو حکومت شہریوں کی اس ضرورت کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس ناکامی کا مطلب آئین پاکستان کے آرٹیکل نو کی خلاف ورزی ہے۔ اٹارنی جنرل کی طرف سے آئین کی اس شق کا حوالہ اور یہ دلیل ضرور وزیراعظم عمران خان تک پہنچنی چاہیے اور وزیراعظم کی ٹیم میں شامل تمام قانونی ماہرین کو اس بارے تفصیلات سے ضرور آگاہ کرنا چاہیے۔ ممکن ہے عوام کے لیے کوئی بہتری کا پہلو نکل آئے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے بعد اب چینی کی ستر روپے فی کلو میں پورے پاکستان میں دستیابی کے لیے سارا وزن حکومت پر ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کے لیے اس سے بہتر وقت نہیں ہو سکتا سب سے پہلے تو اس چیز کو یقینی بنایا جائے کہ پورے ملک میں ہر جگہ ستر روپے فی کلو چینی کی فروخت کو یقینی بنایا جائے۔ اس سلسلہ میں کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ چھوٹے دکانداروں کو چند دن دے دینے چاہییں تاکہ ان کے پاس سٹاک میں موجود چینی ختم ہو جائے اور نقصان سے بچ جائیں۔ یکم جولائی سے چینی کی نئی قیمت پر ہر جگہ دستیاب ہونی چاہیے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان اگر آرٹیکل 9 کا حوالہ دے رہے ہیں تو پھر وہ عوام کو یہ بھی بتا دیں کہ کرونا کے علاج میں استعمال ہونے والی ادویات لاکھوں میں کیوں بک رہی ہیں، پیٹرول، کہاں غائب ہے، آٹے کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے حکومت ستر روپے فی کلو پر عملدرآمد کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے۔ اب چینی کی قیمت کم کیسے اور کب سے ہو گی یہی بڑا چیلنج ہے اگر قیمتوں میں کمی نئے سیزن کے شروع ہوتی ہے تو یہ کوئی ریلیف نہیں ہو گا کیونکہ اگست میں کرشنگ شروع ہو جاتی ہے۔ سیزن کے آغاز میں تو ہر صورت سٹاک نکالنے کی وجہ سے قیمتوں میں کمی معمول کی کارروائی ہو گی۔ امتحان یہ ہے کہ جولائی کے شروع سے چینی کی قیمتوں میں کمی کیسے آئے گی۔
احتساب حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج سیون سٹار سٹورز پر چینی کی قیمت کو قابو کرنا ہے۔ یہ ناانصافی ہے کہ کریانہ سٹور والوں کو چینی ستر روپے فروخت نہ کرنے پر جرمانے کیے جائیں، دکانیں سیل کی جائیں اور دیگر سزائیں بھی دی جائیں لیکن بڑے بڑے سٹوروں والوں کو عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کی مکمل آزادی دے دی جائے۔ بڑے سٹوروں والے سینکڑوں آئٹمز پر منافع کماتے ہیں اس کے باوجود اگر وہ چینی حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر نہ بیچیں تو یہ حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ حالانکہ ان سیون سٹار سٹوروں کے پاس اتنا مارجن ضرور ہوتا ہے کہ یہ چینی میں منافع کم کر دیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن چھوٹے دکاندار کے لیے ایسا ممکن نہیں ہے۔
عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت آٹا، چینی، گھی اور چند دالیں ملک بھر میں ایک ہی قیمت پر فروخت کو یقینی بنائے۔ اشیائ خوردونوش کے معاملے میں کمزور طبقے کے لیے بی کلاس اور سی کلاس ختم کر کے سب کو معیاری چیزوں کی فراہمی کا بندوبست کیا جائے۔ معیاری خوراک ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو یہ سہولت فراہم کرے۔ جو مل مالکان عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں انہیں نشان عبرت بنانا چاہیے لیکن یہ یاد رکھیں کہ کاروبار چلتے رہنے چاہییں کیونکہ اس کاروبار سے ہزاروں لوگ منسلک ہیں۔ کسی بھی کاروبار کی تباہی سے بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ احتساب ضرور ہونا چاہیے لیکن شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ساتھ بات چیت کے دروازے بھی کھلے رکھنے چاہییں کیونکہ ان اداروں نے یہیں رہنا ہے۔ مستقل محاذ آرائی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جن شوگر ملوں کے بارے گھپلے کی تفصیلات موجود ہیں ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔
وزیراعظم عمران خان سے امید ہے کہ وہ عام آدمی کی زندگی میں آسانی کے مقصد میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ ان کی سیاست کا مرکز و محور ہی کمزور طبقہ ہے۔ وہ سب سے زیادہ بات بھی اس طبقے کے حوالے سے ہی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دعائیں بھی ہیں۔ وہ اس حوالے سے بہت سوچتے ہیں اگر وہ اپنی ٹیم کی سمت کو درست کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وزیراعظم اپنے ہدف کو حاصل کر لیں گے۔ عوام کی نظریں ان پر ہیں۔ اگر وزیراعظم کی ٹیم اپنے لیڈر کے جذبے اور لگن کے ساتھ کام کرے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
ندیم افضل چن رخصت پر گئے ہیں انہوں نے جتنا عرصہ وزیراعظم کی ترجمانی کی ہے نہایت کامیابی کے ساتھ ذمہ داری نبھائی ہے۔ ایک ایسے دور میں جب وزیراعظم کے ترجمانوں اور مشیروں کے تنازعات ہی ختم نہیں ہوتے ندیم افضل چن نے کام کرنے کے انداز سے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک تجربہ کار سیاسی کارکن اور سیاسی تربیت کے بغیر میدان میں آنے والوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔ ندیم افضل چن ایک غیر متنازع، تحمل مزاجی اور اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے کام کرتے تھے۔ اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے وہ سب کے لیے قابل قبول تھے۔ ان کی بنیادی تربیت پیپلز پارٹی نے کی لیکن پیپلز پارٹی میں ندیم افضل چن جیسے لوگوں کی بہت کمی ہے۔ ان کا دامن کرپشن اور بداخلاقی کے دور میں بھی صاف رہا یہی ان کے ایک اچھے اور محب وطن پاکستانی کی نشانی ہے۔ ہماری نیک تمنائیں ندیم افضل چن کے لیے ہیں۔ رخصت کے دنوں میں ان کی کمی ضرور محسوس کی جائے گی۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کہتے ہیں کہ دو سال میں تو بچہ بھی چلنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ درست فرماتے ہیں کہ ابھی اس بچے کو چلنا نہیں آیا، دعا ہے کہ اس بچے کو چلنا آئے اور سراج الحق کی یہ خواہش بھی پوری ہو جائے۔ امیر جماعت اسلامی کو بھی چاہیے کہ وہ انگلی تو پکڑنا شروع کریں۔ سراج الحق نے خیبر پختونخوا میں انگلی پکڑی تھی درمیان میں چھوڑ گئے یہ ابھی تک وہیں کھڑے ہیں۔
اختر مینگل کہتے ہیں کہ واپسی کا راستہ نہیں ہے لیکن ہمارے خیال میں ابھی وقت ہے جہاں تک تعلق اختر مینگل کا ہے نجانے وہ کن ضرورتوں کی وجہ سے شامل ہوئے تھے اور کن مصلحتوں کی وجہ سے حکومت سے الگ ہوئے ہیں یہ ایک لمبی بحث لیکن سیاسی سفر میں کبھی دروازے بند نہیں ہوتے اور اختر مینگل یہ اچھی طرح جانتے ہیں