کرونا وائرس نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر دی ہیں، ساری دنیا میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہے۔۔۔ٹیلی ویژن دیکھو تو دل دہل جاتا ہے بار بار احتیاطی تدبیروں کے بارے میں کہا جاتا ہے۔۔۔اور شامت اعمال اخبار پکڑیں تو بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ بتایا جاتا ہے کہ کروناوائرس سے اموات زیادہ سے زیادہ ہو رہی ہیں۔۔۔لاک ڈائون کی وجہ سے لوگ گھروں میں بند ہیں۔۔۔ظاہر ہے کہ ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہیں۔۔۔کسی اور بات کا سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔۔۔اسی طرح کچھ دن ہوئے بہبود ایسو سی ایشن کے میسج پڑھ رہی تھی تو اچانک سلمیٰ ہمایوں کا میسج پڑھ کر دل ایک دم سے دھڑک اٹھا۔۔۔جس میں اس نے لکھا ہوا تھا کہ’’ بہبود ایسو سی ایشن کی چیئرمین فریدہ انور قضائے الٰہی سے ان کا انتقال ہو گیا ہے‘‘۔ فریدہ انور کی شخصیت آن بان اور شان میری نگاہوں میں گھوم گئیں۔۔۔آنکھوں کے گوشے سے چھپا ہوا ایک آنسو ڈھلک پڑا۔۔۔ظاہر ہے ہر ایک نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے جو آیا ہے اس نے جانا بھی ہے۔ فریدہ انور کو میں کئی سالوں سے جانتی تھی نہ صرف وہ چیف سیکرٹری کی اہلیہ تھیں بلکہ ایک دانشور خاتون بھی تھیںاورمیری بہن کی نند کی دیورانی بھی تھیں،اسی ناطے میری ان کے ساتھ بہت دوستی بھی تھی، کافی عرصہ میں اسلام آباد میں رہائش پذیر رہی تو میں نے بہبود کے ادارے کو خیرباد کر دیا تھا۔
مگر جونہی چند سال پہلے میری واپسی ہوئی تو سلمیٰ ہمایوں جو میری عزیز سہیلی بھی ہے۔۔۔اس کے اصرار پرمیں نے بہبود ایسوسی ایشن پھر سے جوائن کر لیا۔۔۔فریدہ انور اس ادارے کی پریذیڈنٹ اور سلمیٰ ہمایوں سینئر وائس پریذیڈنٹ تھیں۔۔۔میں نے بہت سال کے بعد فریدہ انور کو دیکھا تو وہ کافی بیمار تھیں مگر بطور پریذیڈنٹ کے ویل چیئر پر روز بہبود ایسو سی ایشن آتیں اور سلمیٰ ہمایوں اور ایگزیکٹو ممبران کے ساتھ مل کر بہبود کیلئے کام کرتیں۔۔۔اس بیماری میں ان کی قوتِ ارادی(Will Power)دیکھ کر رشک آتا تھا۔۔۔اور حیرت ہوتی تھی کہ وہ کس طرح اپنے کام سر انجام دے رہی ہیں ورنہ بیماری کی حالت میں خواتین بستر پر ہی پڑی رہتی ہیں۔ لہٰذا نہ صرف سلمیٰ کے بلکہ فریدہ انور کے اصرار پر بھی میں باقاعدگی کے ساتھ بہبود کی میٹنگ اٹینڈ کرتی رہی۔۔۔۔۔۔ میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ ہمارے ملک میں بہت غربت ہے اور غریب کی زندگی اجیرن ہے۔۔۔فریدہ انور نے سب ایگزیکٹوممبران کے ساتھ مل کر یہ سوچا کہ ان غریب لوگوں کو کس طرح مصیبت سے نجات دلائیں اور کیسے ان کی مدد کی جائے۔ کیونکہ وہ اچھی طرح سے جانتی تھیں اللہ کے بندوں کی مدد کرنا اور ان کے کام میں آنا ہی صحیح عبادت ہے۔۔۔گو کہ وہ بیمار تھیں مگر ان کے کندھوں پر سلمیٰ ہمایوں،مینا اور ڈاکٹر تسنیم کا ہاتھ تھا۔۔۔ان خواتین کے ساتھ مل کر کچی آبادی میں پرائمری سکول بنوایا جہاں غریبوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ یونیفارم اور کتابیں بھی مفت دی جاتی ہیں اب یہ ہائی سکول بن گیا ہے۔انہوں نے یہ ضرور سوچاتھا کہ اس مہنگائی میں ایک غریب کو کس طرح سے خوش رکھا جا سکتا ہے۔ اس ادارے میں جتنے بھی لوگ ہیں ان تھک محنت کرتے ہیں۔بہبود کی طرف سے ٹائپنگ کا سکول بھی نصیر آباد میں بنایا گیا ہے۔ جہاں طالب علموں کو کمپیوٹر کی کلاسز دی جاتی ہیں اور قرآن مجید کی کلاسز بھی ہوتی ہیں۔ادارہ بہبودکی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس معاشرے میں بے حسی ،وسائل کی کمی اور دیگر وجوہات کی بنا پر غریب اور نادار لوگوں کو مناسب طبی امداد نہیں ملتی۔ غریب لوگ پرائیویٹ ہسپتال میں نہیں جا سکتے۔۔۔بہبود اپنے اہل ڈاکٹروں کی مدد سے جیسے ڈاکٹر تسنیم عامر رضا کی خدمات کو مد نظر رکھ سکتے ہیں۔۔۔کان،ناک اور دل کے امراض کا بہبود کے ہسپتال میں علاج بالکل مفت کیا جاتا ہے۔۔۔بہبود کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔فریدہ انور اس ادارے کی پریذیڈنٹ اورسلمیٰ ہمایوں وائس سینئر پریذیڈنٹ نکم جنریشن کا کام بخوبی سنبھالتی ہیں۔ باقی ادارے ایگزیکٹو خواتین ڈاکٹر شہریار کی اہلیہ اسماء ،ڈاکٹر بشیر کی اہلیہ الماس،نجمہ جاوید اوردیگر خواتین فریدہ انور کی زیر نگرانی بہت کام کررہی تھیں۔فریدہ انور اس دنیا میں سدھار چکی ہیں۔۔۔وہ اللہ کی خوشنودی کیلئے انسانیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیتی رہی تھیں یہ بھی نہیں سوچتی تھیں کہ میں بیمار ہوں۔ وہ باغ و بہار دانشور اور اعلیٰ پائے کے ظرف کی مالک تھیں۔ ان میںانسانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ بھرا ہوا تھا۔ اتنی بیماری میں بھی خدا کی مخلوق کو فیض پہنچاتی رہی تھیں۔۔۔انسان تو خالی ہاتھ اللہ کے دربار میں پہنچتا ہے مگر انسانیت کیلئے جو نیک اعمال اکٹھے کرتا ہے۔۔۔۔وہ اپنے اعمال ساتھ لیکر جاتا ہے۔۔۔خدا ان کو مغفرت دے اور جنت میں اعلیٰ مقام دے۔۔۔آمین۔
’’فریدہ انور کی یاد میں‘‘
Jun 21, 2020