آج محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہید کی 67 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ اس موقع پر ان کو یاد کرتے ہوئے فخر محسوس ہوتا کہ بی بی کی جدوجہد اور ان کی تحریریں پارٹی کارکنوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔
بی بی اپنی پارٹی کو منظم رکھنے کے لیے اسکے معاملات انتہائی جمہوری انداز میں چلاتی تھیں۔ لوگوں کو انتخابی نمائندگی کے لیے پارٹی ٹکٹ دینے کے لیے بی بی کا معیار بہت غیر جانبدارانہ ہوتا۔ وہ ضلعی سطح پر پارٹی کے صدور اور سیکرٹریوں سے مشورہ لیتی تھیں تا کہ صحیح شخص کو پارٹی ٹکٹ دیں۔ بعض اوقات کوئی نمائندہ کسی کا منظور نظر ہوتا تو بی بی واشگاف کہہ دیتی تھیں کہ اگر وہ نمائندہ معیار پر پوار اترتا ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں تاہم وہ ہمیشہ مخلص کارکونوں کی عزت کرتی تھیں اور انہیں ترجیح دی تھیں۔ اس حوالے سے ان کا ضمیر بالکل صاف تھا۔ سیاسی نوعیت کے فیصلوں کے لیے وہ پارٹی رہنماؤں ہی سے مشورہ کرتی تھیں اور ہر ایک سے رائے لے کر آخری فیصلہ خودکرتی تھیں۔ اگر کسی عہدیدار بنانا ہے تو متعلقہ صوبے اور ضلعے کے صدور سے رائے لیتی تھیں اور ان معاملات میں وہ کسی کا دخل برداشت نہیں کرتی تھیں۔
1999ء میں بی بی لندن میں تھیں، وہ ہر روز صبح پانچ گھنٹے کمپیوٹر پر بیٹھ کر E-mail کے ذریعے پاکستان میں ہر جگہ کے پارٹی ورکر سے رابطے ہوتی تھیں۔ اسی طرح شام کے وقت بھی تقریباً یا ڈیڑھ گھنٹہ وہ لوگوں سے رابطہ کرتی تھیں۔ ہر کسی کا E-mail کا جواب خود دیتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ ان کے دو لفظوں سے لوگ خوش ہو جائیں گے اور زیادہ دلجمعی کے ساتھ پارٹی کے لیے کام کریں گے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ پارٹی کے ایک مرکز کے طور پر مضبوطی سے تھامے رکھتی تھیں۔
1985ء میں شاہنواز بھٹو کی موت کے بعد بی بی تین چار ہفتے پاکستان میں رہیں بعدازاں انہیں واپس لندن بھیج دیا گیا۔ ان ایام کے دوران انہیں اندرونی سازشوں کا بھی علم ہو گیا جو پارٹی کے دیگر ارکان کر رہے تھے مگر غم سے نڈھال بی بی کو ایک نیا جوش اور ولولہ بھی ملا اور یہی جوش اور جذبہ انہیں اپریل 1986ء میں دوبارہ پاکستان لے کر آیا۔
اس وقت بی بی دو طرح کے حالات میں گھری ہوئی تھیں۔ ایک طرف پاکستانی عوام کا خلوص تھا تو دوسری طرف پارٹی کے سینئر رہنما رشیہ دوانیوں میں مصروف تھے۔ سازشیں تو ان کے پاکستان قیام کے دوران ہی منظر عام پر آگئی تھیں۔ ایک مرتبہ شیخ رشید سینئر چیئرمین، عبدالحفیظ پیرزادہ، غلام مصطفی کھر، ڈاکٹر غلام حسین اور دوسرے اہم رہنماؤں نے بی بی کے لندن میں واقع فلیٹ پر ایک میٹنگ کی۔ اس میٹنگ میں انہوں نے ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ کوئی بیان جاری نہیں کر سکتیں۔ پارٹی کے متعلق بیانات میرے ذریعے وہ خود جاری کرتی تھیں وہ پارٹی کی Co-chairperson تھیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ بیانات سیکرٹری جنرل جاری کرے گا یا پھر سینئر وائس چیئرمین۔ یہ لوگ چاہتے تھے کہ اختیارات اپنے قبضہ میں کرلیں مگر وہ اس دبائو کو خاطر میں نہ لائیں۔ یہ دراصل ان کیخلاف ایک منظم سازش تھی۔ بعد میں ان لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا۔ ممتاز بھٹو جیسے لوگوں نے سندھ، بلوچستان فرنٹ بنا لیا، مگر بی بی نے انہیں یہ کہہ کر رد کردیا کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ فیڈریشن کی جماعت ہے اور رہے گی۔
بینظیر بھٹو نے اس Nationallist تحریک کی ابتداء ہی سے سختی سے مخالفت کی۔ ان تمام مراحل میں وہ آخرکار فاتح ہوئیں اور مخالفین کی کوشش کے باوجود انہیں ایک قومی رہنما بننے سے کوئی نہ روک سکا۔بی بی گھریلو امور سے لے کر سیاسی محاذ تک اکیلی ہی تھیں۔ اسٹیبلمشنٹ ان کیخلاف تھی۔ یوں وہ تن تنہا بہت سارے محاذوں پر لڑ رہی تھیں۔ ان کی توجہ بہت بٹی ہوئی تھی۔
بی بی بیک وقت کئی کردار نبھا رہی تھیں۔ وہ بچوں کیلئے باپ بھی تھیں اور ماں بھی۔ گھر میں مرد نہ ہونے کی وجہ سے بھی انہیں مشکل کا سامنا تھا اس لئے انہیں تنہائی کا ایک احساس مسلسل رہتا تھا۔ اس تنہائی کے احساس کو کم کرنے کیلئے وہ اپنے دوست احباب کو دبئی بلا لیا کرتیں۔ لندن میں لوگوں کا جانا مشکل ہوتا تھا۔ دبئی میں لوگ آتے رہتے تھے۔ بی بی ان سب لوگوں کو نہایت منظم طریقے سے وقت دیا کرتیں۔ وہ پارٹی کے عام کارکنوں سے بھی ملتیں۔ باقاعدگی سے کمپیوٹر پر پانچ پانچ گھنٹے کام کیا کرتیں۔ آرٹیکل تحریر کرتیں اوراہم معاملات پر اپنے بیانات جاری کرتی تھیں۔ اس طرح انہوں نے اپنی تنہائی کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ 1998ء سے 2007ء تک پاکستان پیپلزپارٹی متحد اور متحرک رہی۔اس کے علاوہ وہ امریکہ میں لیکچر دیا کرتیں۔ ایک ماہ میں آٹھ دس دن یوں گز رجاتے تھے۔ اس کے بدلے میں انہیں معقول معاوضہ مل جاتا جو ان کی گزربسر کیلئے کافی ہوتا۔
ایسے میں سب سے زیادہ پریشانی کا باعث ان کیلئے آصف صاحب پر بننے والے مقدمات تھے۔ آصف زرداری صاحب پر جتنے بھی مقدمات بنائے گئے وہ اسی خاص پراپیگنڈے کا حصہ ہیں جو شروع سے ہی ان کیخلاف کیا جارہا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان تمام مقدمات میں سے مخالفین کوئی ایک مقدمہ بھی سچا ثابت نہ کرسکے۔
سرے محل اور سوئس سکینڈل کی وجہ سے بی بی کی ساکھ کو بہت دھچکا پہنچا۔ بی بی کو ایک بات کی بہت پریشانی تھی، وہ یہ کہ ان کے نام کو بدنام کیا جارہا تھا۔ وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ پہلے دو تین سال تو انتہائی مشکل تھے۔ پہلے ایک الزام لگتا اور کچھ عرصے کے بعد وہی الزام دوبارہ لگایا جاتا رہا، بار بار انہیں پریشان کیا جاتا۔ ان تمام سکینڈلز اور الزامات نے بی بی کو سیاسی طور پر زیادہ باشعو ربنا دیا اور انہیں پتہ چل گیا کہ کس طرح سے کون کون سی طاقتیں ان کیخلاف برسرپیکار اور انہیں تباہ کرنا چاہتی تھیں۔ سیاسی شعور اور آگہی کی وجہ سے دنیا میں ہر کوئی بی بی کی عزت کرتا تھا۔ آپ کسی بھی ملک میں چلے جائیں نہ صرف وہاں کی حکومتیں بلکہ وہاں کے عوام بھی بی بی سے محبت کرتے تھے۔ جو کوئی بھی ان سے مل لیتا وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا۔