ملک معراج خالد 1916ء کو لاہور کے سرحدی گاؤں "ڈیرہ چاہل" میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے ۔اس خاندان کا آبائی پیشہ بھینسوں کا دود ھ فروخت کرنا تھا ۔جونہی ملک معراج خالد نے ہوش سنبھالی تو انہوں نے بھی اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے گاؤں سے شہر لاکر دودھ فروخت کرنا شروع کردیا۔ ملک معراج خالد کو اللہ تعالی نے بچپن ہی سے اتنا شعور دیا تھا کہ انہوںنے اپنے دودھ میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں کی۔ ان کے مطابق دودھ اللہ کا نور ہے اور اللہ کے نور میں ملاوٹ کرنا کفر کے مترادف ہے ۔ایک جگہ وہ اپنے بیتے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ اپنے گاؤں سے لاہورآنے کے لیے صبح تین بجے بیدا ر ہو جاتے پھر سائیکل پر دو بڑے ڈبوں میں دودھ محفوظ کرکے شہر کی جانب روانہ ہوجاتے ۔گھر میں غربت اتنی تھی کہ ان کے پاس پہننے کو جوتے بھی نہیں تھے ۔وہ اپنے والد کی چپل پہن کر سائیکل پر شہر آتے ،شہر میں ایک جگہ انہوں نے بوٹ رکھے ہوتے جنہیں پہن کر وہ واپسی پر سکول چلے جاتے ۔ایک مرتبہ انکی اکلوتی چپل بھی ٹوٹ گئی جس پر وہ گاؤں سے شہر تک ننگے پاؤں سائیکل چلاکرآئے ۔ان کے خالص دودھ کی جب دھوم مچی تو لوگ انہیں اور زیادہ دودھ لانے پر اصرار کرنے لگے تو انہوں نے دودھ کے ساتھ دیسی انڈے اور دیسی مرغیاں بھی لانی شروع کردیں۔ملک معراج خالد نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے ایک پرائمری سکول سے حاصل کی ،میٹرک کا امتحان سنٹرل ماڈل سکول سے پاس کیا ،اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے 1939ء میں بی اے کرنے کے بعد1946ء لاء کالج سے قانون کی تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھا ۔جب ذولفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو ملک صاحب بھی بھٹو کے جانثارساتھیوں میں شامل ہو گئے ۔1970ء کے عام انتخابات میں آپ پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم پر ممبر نیشنل اسمبلی منتخب ہوئے۔یہیں سے آپ کی سیاسی زندگی کا آغا ز ہوا۔ 20دسمبر 1971ء کو جب بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو ان کی پہلی کابینہ میں ملک معراج خالدکے حصے میں وزیر خوراک کا قلمدان آیا ۔چھ ماہ بعد انہیں وزیر اعلی پنجاب کا منصب سونپ دیا گیا ۔جب بھٹو حکومت کا تختہ جنرل محمد ضیاء الحق نے الٹا تو انہوں نے ایم آر ڈی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔1988ء کے قومی الیکشن میں وہ ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ممبر نیشنل اسمبلی منتخب ہوگئے اور شاندار ماضی کی بدولت آپ کو سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر فائز کردیا گیا۔جب بے نظیر بھٹو سے اختلافات بڑھ گئے تو آپ نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی ،لیکن آپ کسی اور جماعت میں شامل نہ ہوئے۔ 1993ء میں ملک صاحب انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر مقرر ہوئے ۔اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد آپ کو ایک بار پھر بین الا قوامی سطح پر کام کرنے کا موقع ملا ۔نومبر 1996ء میں جب صدر پاکستان کی حیثیت سے سردار فاروق احمد خاں لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تو ملک معراج خالد نگران وزیراعظم مقرر ہوئے ۔یہ انکی سیاسی زندگی کا ایک اور دور تھا ،جب انہوں نے پہلی مرتبہ کرپٹ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے احتساب کی بنیاد رکھی ۔وزارت عظمی کے دور میں آپ چھٹی کا دن لاہور میں گزارتے اور لکشمی مینشن ، بیڈن روڈ میں اپنے دوستوں سے کسی پروٹوکول کے بغیر ملتے ۔نگران وزیراعظم کے عہدے سے آپ سبکدوش ہوئے تو ایک روز ڈاکووں نے ان سے ان کی ذاتی گاڑی بھی چھین لی،جس سے ملک صاحب پیدل سفرکرنے پر مجبور ہوگئے۔ آپ نے برکی کے نواح میں اخوان ہائی سکول قائم کیا ،جو اب کالج کا درجہ حاصل کرچکا ہے ، اپنی آمدنی کا معقول حصہ آپ اس تعلیمی ادارے کو عطیہ کرتے رہے۔گاؤں میں ہمارا کچا کوٹھا تھا،زندگی بھر میںنے نہ کسی شخص سے قرض لیا اور نہ کسی بنک سے ۔میری ماں عجز و انکسار کا پیکر تھی ۔اس سے مجھے عفو و درگزر ،برداشت ،تحمل اور رواداری کا سبق ملا اور ہمیشہ میں نے اپنی زندگی کو اسی سانچے میں ڈھالے رکھا ۔حسد، عناد اور انتقام کے سفلی جذبات سے غیر معمولی حد تک میں محفوظ رہا ۔یہ میری ماں کی مجھ بر بڑی عنایت تھی۔عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ سانس میں دشواری کے مرض نے انہیں بے حال کیے رکھا۔ بالاخر 13جون2003ء کو ملک معراج خالد اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے لیکن پاکستان کی تاریخ میں ان کا ذکر ایک اچھے انسان اور سرسید ثانی کی حیثیت سے ہمیشہ ہوتا رہے گا۔