پاکستانی عوام، حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف الزام تراشیوں کی روش اگرچہ مغربی اور بھارتی میڈیا کا دیرینہ مشغلہ رہا ہے علاوہ ازیںوطن عزیز کے کچھ حلقے بھی دانستہ طور پر اس میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی شدت آ گئی ہے اور افواج پاکستان و آئی ایس آئی کے خلاف ایسے ایسے افسانے تراشے جا رہے ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے نہ ہی پیر۔ درحقیقت پاکستان کے ازلی مخالفین گذشتہ 74 سالوں سے پاکستان کے خلاف منظم مہم چھیڑے ہوئے ہیں اور اس کے پس پردہ نہ صرف بھارت اور اسرائیل کے حکومتی طبقات ہیں بلکہ امریکہ اور یورپ کے کچھ حلقے بھی اس مکروہ مہم میں حصہ بقدر جثہ ڈال رہے ہیں۔ حقیقتاً تمام اندرونی و بیرونی قوتیں اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ آئی ایس آئی قومی مفاد کے تحفظ کیلئے پاکستان کا اہم ترین ادارہ ہے ، اس لئے پاکستان کو ہدف بنانے کیلئے قومی سلامتی کے اس ادارے کی شبیہہ خراب کرنا ضروری ہے حالانکہ تمام حلقوں کی جانب سے یہ تسلیم بھی کیا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی دنیا کی سب سے مشہور پیشہ ورانہ انٹیلیجنس ایجنسی ہے جسکی کامیابیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ پاک قومی سلامتی کے اداروں نے سویت یونین کی شکست سے لیکر انڈیا کے منفی پروپیگنڈہ کو ناکام بنانے تک بے شمار محاذ پر کامیابی حاصل کی۔یہی نہیں بلکہ کلبھوشن یادیو جیسے سینئر انڈین جاسوس کو گرفتار اور بے نقاب کرنا بھی انکی پیشہ ورانہ صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تبھی تو دنیا کے کئی مورخ اور ادیب ان اداروں کی خدمات پر کتابیں اور تحقیقی تجزیے بھی لکھ چکے ہیں۔یہاں یہ امر بھی توجہ کا حامل ہے کہ دنیا کے تمام ممالک بشمول امریکہ و برطانیہ میں بھی انٹیلیجنس ایجنسیاںاپنے قومی مفاد کیلئے بھرپور کردار ادا کرتیں ہیں لیکن عالمی میڈیا ان کے کردار کو کبھی ہدفِ تنقید نہیں بناتا۔ بدقسمتی سے پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسیاں عالمی میڈیا (خصوصاََ انڈیا، افغان اور امریکی میڈیا) کی تنقید کا ہدف ہیں اور یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبہ یعنی فتھ جنریشن وارفیئر کا اہم حصہ ہے جس کے تحت پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش تیار کی جا رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق نائن الیون کے سانحے کے بعد ان حلقوں کی بن آئی تھی، جب عالمی سطح پر پاکستان پر کافی دبائو بڑھ گیا تھا مگر زمینی حقیقت ازل سے یہی چلی آ رہی ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، سچ کو بہرحال سامنے آنا ہی ہوتا ہے، محض پراپیگنڈے کے زور پر کوئی فرد یا گروہ ساری دنیا کو ہمیشہ کے لئے گمراہ نہیں کر سکتا۔ لہذا اسی آفاقی اصول کے تحت عالمی برادری پر بھی گذشتہ کچھ عرصہ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاکستانی ادارے دہشتگردی کی سرپرستی نہیں کر رہے بلکہ اس برائی کے خلاف ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
عالمی برادری کے خاصے بڑے حلقے میں بھی اس حقیقت کا ادراک سامنے آ رہا ہے کہ پاک فوج، عوام اور آئی ایس آئی دہشتگردی کے خاتمے کے لئے لازوال قربانیاں دے رہے ہیں۔ اسی عالمی اعتراف کا نتیجہ ہے کہ کئی انسان دوست حلقوں کی جانب سے گاہے بگاہے پاک فوج اور آئی ایس آئی کی بھرپور تعریف کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے یہ بات پاکستان کے مخالفین کو کسی طور ہضم نہیں ہو رہی، اس لئے انھوں نے پلٹ کر وار کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی سفارتی پسپائی کو فتح میں تبدیل کرنے کی ناکام سعی کی جا رہی ہے۔ اسی تناظر میں کبھی پاک مخالف شخصیتوں کو مہرہ بنا کر ہرزہ سرائی کرائی جاتی ہے اور کبھی کچھ نام نہاد ’تجزیہ نگاروں‘ کے ذریعے ایسی نکتہ آفرینیاں کرائی جاتی ہیں کہ الامان الحفیظ۔ حالانکہ اس بات سے سبھی بخوبی آگاہ ہیں کہ دہشتگردی کے ہاتھوں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے ، یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ پاکستان میں افسروں اور جوانوں کی شہادت کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ افواج پاکستان کے سینئر افسران سمیت 7 ہزار سے زائد آرمی اہلکار اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر چکے ہیں۔ کیا امریکہ، بھارت، اسرائیل یا کوئی بھی دوسری ریاست اس طرح کی کوئی قربانیاں رقم کر سکی ہے؟۔ان تمام قربانیوں کے باوجود اگر کوئی بیرونی طاقتوں کے ایما پر افواج پاکستان بشمول آئی ایس آئی کو ہدف تنقید بنائے تو عالمی برادری خصوصاً امریکہ، برطانیہ اور دیگر حکومتوں کا فریضہ ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ایسے شرپسند عناصر کی لغویات کی فوری طور پر تردید کریں اور عالمی ذرائع ابلاغ ایسے الزامات کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے اس طرح کے طبقات کی ذہنی حالت کا محاسبہ کریں اور یہ بھی پتہ لگائیں کہ اس کے محرکات کیا ہیں؟ اس طرح کے عمل سے دہشتگرد اور منفی عناصر کو تقویت ملتی ہے ۔وطن عزیز کے سبھی حلقوں خصوصاً حضرات و خواتین کی بھی ذمہ داری ہے کہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا و تحقیقی اداروں کے ذریعے ایسی بے بنیاد الزام تراشیوں کا خاطر خواہ ڈھنگ سے جواب دیں اور بڑے ناموں سے مرعوب ہونے کے بجائے دلیل کو اہمیت دیں۔ کچھ بڑے نام غالباً اپنے طرز عمل کی وجہ سے ’’نام بڑا اور درشن چھوٹے‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ بی بی سی، سی این این، لندن سکول آف اکنامکس، حسین حقانی، طارق فتح، عائشہ صدیقہ جیسے کچھ عناصر پاک فوج اور آئی ایس آئی کو پھر مطعون کرنے کی جانب راغب نظر آتے ہیں، خصوصاً آئی ایس آئی تو ازل سے ہی پاک وطن کے مخالفین کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے اور ’’میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح‘‘ کی عملی مثال بن چکے ہیں، مگر یہ امر بھی طے ہے کہ وطن عزیز خدائے بزرگ و برتر کی خاص عنایت سے ہی وجود میں آیا تھا اور اپنی تمام تر کوتائیوں کے باوجود پاک قوم اور قومی سلامتی کے ادارے تا ابد سلامت رہیں گے ۔