پاکستان کی وزارت خزانہ میں لگتا ہے بیوٹی سیلون ایکسپرٹ جمع ہو گئے ہیں جو ملک کے سا لانہ بجٹ پر ایسا میک اپ کرتے ہیں جیسے آج کل مہنگے بیوٹی پارلر واپے دلہن کا کرتے ہیں جس طرح اگلے دن گھر میں وہ دلہن تلاش کرنا مشکل ہوتی ہے جو ایک دن قبل گھر میں آئی تھی اسی طرح عوام کو بجٹ کے بعد وہ سب کچھ تلاش کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا جس کا وعدہ بجٹ تقریر میں کیا جاتا ہے اس دفعہ بھی اصل بجٹ پر ایسا ایسا میک اپ کیا گیا اور ایسی ایسی بیس استعمال ہوئی ہے کہ عوام کو لگا اس بجٹ نے تو ان کی زندگی ہی سنوار دی ہے لیکن اب جب بجٹ کا میک اپ اتر گیا ہے تو اس کی خوفناک شکل نظر آنا شروع ہو گئی ہے کہا گیا ہے کہ وزیر خزانہ شوکت ترین ایک صفحہ پڑھ نہیں سکے تھے اور کہانی اسی صفحے پر تھی جس میں ضروریات زندگی کی اہم اشیاء پر بلند شرح سے ٹیکس لگائے گئے ہیں دودھ کے بند ڈبے پر 17فیصد سیلز ٹیکس ،سویا بین سیڈ پر 17فیصد سیلز ٹیکس اور CNGپمپس کی انڈسٹری جو پہلے ہی قبر میں پڑی تھی اس پر مٹی ڈالنے کیلئے LNGپر ٹیکس لگا دیا گیا ہے اس کے علاوہ 70سے زائد اشیاء پر ٹیکس لگائے گئے ہیں جن میں عام ضروریات زندگی سے لیکر صنعتی مشینری اور زرعی اجناس تک شامل ہیں اور سب سے بڑا مذاق کاٹن کے ساتھ ہوا ہے یاد رہے کہ پاکستان میں گذشتہ سال 2021-21کاٹن سیزن میں تاریخ کی کم ترین پیداوار ہوئی اس کے باوجود بجٹ میں کاٹن کی سیلز پرسیلز ٹیکس 10فیصد سے بڑھا کر 17فیصد کر دیا گیا ہے جبکہ کاٹن سیڈ سے تیار کردہ خوردنی تیل پر بھی سیلز ٹیکس 17فیصد لگا دیا گیا ہے بجٹ میں اعلان ہواتھا کہ کھانے والے تیل اور گھی پر سے ٹیکس کم کئے جا رہے ہیں تاکہ فی کلو گھی وتیل جو 250سے300کلو ہیں اس کی قیمت میں کمی ہو گی اب بجٹ میک اپ اترنے کے بعد حالت یہ ہے کہ گھی اور تیل کی قیمتوں میں کمی تو نہ ہوسکی کھانے والا گھی اور تیل بنانے والے 270کارخانوں نے ہڑتال کا عندیہ دے دیا ہے جس سے گھی اور تیل ملنا ہی مشکل ہو جائے گا بجٹ کے بعد کسی بھی چیز کا سستا ہونا نظر نہیں آ رہا جن 850سی سی گاڑیوں کے سستے ہونے کی کہانی سنائی گئی وہ بھی ایک مذاق ہے الٹا مارکیٹ میں 10سے15ہزار فی گاڑی تیز ہو گئی ہے جبکہ لوکل کار مینو فکچرنگ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ حکومتی ٹیکس کم ہونے سے صرف یہ ہوگا کہ گاڑیوں کی قیمت میں بڑا اضافہ نہیں ہو گا کمی تو ممکن ہی نہیں ہے جبکہ ڈالر بھی 3روپے بڑھ گیا ہے اس کو ایشو بنا کر گاڑیوں کا ریٹ اوپر ہی رہے گا بجٹ میک اپ اترنے کے بعد سب سے زیادہ سراسمگی او ر ہراس پھیلاہے جو کاٹن جینگ آئل ملز اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ہے کیونکہ کاٹن اور کاٹن سیڈ آئل پر 17فیصد سیلز ٹیکس ایسے ہے کہ چلتی گاڑی کا ٹائر برسٹ ہو جائے کیونکہ کپاس کی کم پیداوار کی وجہ سے پہلے ہی کاٹن جینگ اور آئل ملز والے بحران کا شکار تھے اور اب جو رہی سہی کسر ہے وہ اس 17فیصد سیلز ٹیکس نے پوری کر دی ہے اب یہ ٹیکس ادا کرنا ٹیکسٹائل مل والے نے ہی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس 17فیصد سیلز ٹیکس پر بھی ایک فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کاٹن جنرز نے ہر صورت دینا ہے۔
کاٹن سیزن 2021-22کا آغاز ہو گیاہے اور سندھ کی ساحلی پٹی پر چنائی ہونے والی کپاس کا ریٹ 6400من کھلا ہے اور کاشتکار کے چہرے پر اس دام نے خوشی کی لہردوڑا دی ہے یکم جولائی سے جب کاٹن اور کاٹن سیڈ آئل پر 17فیصد سیلز ٹیکس کا نافذ ہو گا اس کے بعد بھی پھٹی کا یہ ریٹ رہے گا اس پر پورے پاکستان میں کوئی بھی متفق نظر نہیں آتا یقینی بات ہے پھٹی میں مندا آئے گا جس کا آغاز اس بجٹ میک اپ اترنے کے بعد ہی محسوس کیا جا رہاہے آخر کونسے ایسے افلا طون اور سقراط پاکستان کی معاشی پالیسیاں بنا رہے ہیں جو یہ بھی نہیں جانتے کہ پاکستان میں زرعی مداخل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کے بعد کپاس کی پیداواری لاگت پورے خطے میں پاکستان میں سب سے زیادہ ہو گئی ہے اور اگر کاشتکار کو اس کا درست معاوضہ نہیں ملے گا تو وہ پہلے ہی کپاس لگانے کو تیار نہیں ہیں پھر وہ کیسے لگائیں گے اور جب پھٹی کا ریٹ کم ہوگا تو پنجاب جہاں اگست میں کپا س کی چنائی شروع ہونی ہے تو وہ کپاس کو مکمل کھاد ،دوائیاں اور پانی کیوں دے گا کیونکہ یہ سب دینے کے بعد بھی پھٹی کا ریٹ کم ملے گا تو کاشتکار تو نقصان ہی کرے گا اور یہ تو وزیر اعظم سے لیکر نیچے تک سب کو پتہ ہے کہ کاٹن کی فصل پاکستان کی اتنی اہم فصل ہے جو GDPپر اثر انداز ہوتی ہے کاٹن اور کاٹن سیڈ آئل پر 17فیصد سیلز ٹیکس بلاجواز ہے اور اس کے ملکی معیشت کو نقصان ہو گا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ایکسپورٹ بیس انڈسٹری کو مکمل طور سیلز ٹیکس سے نکال دیں تاکہ پاکستان کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہو اب جبکہ بنگلہ دیش جیسا ملک سالانہ 50ارب ڈالر کی ایکسپورٹ پر پہنچ گیاہے جبکہ پاکستان کی سالانہ ایکسپورٹ صرف 23ارب ڈالر ہونا شرمناک ہے اور پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے منہ پر طمانچہ کر ہے تاریخ ان لمحات کو یاد رکھے گی جب پاکستان سے 50سال قبل آزاد ہونے والا بنگلہ دیش اپنی 50ارب ڈالر سالانہ ایکسپورٹ جشن منا رہاتھا اس وقت پاکستان کی پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندے ایک دوسرے کو ماں اور بہن کی فحش گالیاں نکال رہے تھے اور ایک دوسرے سے اس طرح دست گریباں تھے جیسے کچی آبادیوں میں بچے پاپڑ پر لڑتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں وہ قیادت ابھر کر سامنے ہی نہیں آسکی جو ملک کو معاشی ترقی کے مینار پر چڑھا سکتی اور جب تک پاکستان سیاسی اشرافیہ کے گھیرائو میں رہے گا ملک میں اشرافیہ تو ترقی کرے گی لیکن ملک کبھی بھی ترقی نہیں کر سکے گا ۔ (ختم شد)