تھانہ کلچر میں تبدیلی کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا؟

برطانیہ کے متحدہ ہندوستان پر مکمل قبضے کے بعد ہندوستانی عوام کو اپنے زیر تسلط رکھنے کیلئے جہاں انگریزوں نے جاگیروں کے  لالچ دیکر ہندوستانیوں کو ان کے اپنے لوگوں پر ظلم ڈھانے کیلئے استعمال  کیا اور بہت سے اقدامات کیے اُن میں سے ایک پولیس محکمے کا قیام بھی تھا اس کیلئے پولیس ایکٹ نافذ کیا گیا جس میں پولیس کو لا محدود اختیارات تفویض کیے گئے تاکہ کوئی عام شہری کسی معمولی اہلکار کے سامنے سر اٹھانے کی جرأت اور تاج برطانیہ کی رٹ کو چیلنج کرنے کی ہمت نہ کرسکے بالآخر سو سال کی طویل ہندوستانی عوام کی جدوجہد رنگ لائی اور انگریزوں کو ہندوستان چھوڑ کر اپنے وطن واپس لوٹنا پڑا لیکن ان کے بعد برصغیر کی تقسیم کے باوجود اور کلمہ کے نام پر معرض وجود میں آنے والی عظیم اسلامی ریاست پاکستان میں آج بھی پولیس محکمہ انگریزوں کے دئیے گئے بنیادی ڈھانچے سمیت قائم ودائم ہے اب گوروں کی بجائے پولیس جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور حکومت پر ناجائز قابضین کی اسی طرح تابعدار ہے۔آج بھی بے بس اور لاچار عوام انگریزوں کے دور کی طرح پولیس گردی کا شکار ہیں۔ ہرتھانے میں ماہانہ جھوٹے پرچوں کی تعداد کم از کم 60 سے 70 فیصد ،  جبکہ 80 فیصد لوگ رشوت اور سفارش کے بنا حقائق پر پولیس رپورٹ درج کرانے سے محروم ہیں۔گزشتہ دو دہائیوں سے ہر آنے والی حکومت اور نئے تعینات ہونے والے پولیس سربراہان پر تھانہ کلچر میں تبدیلی کا بھوت وقتی طور پر سوار ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں بلند وبانگ دعوے کیے جاتے ہیں نت نئے اقدامات اٹھائے ضرور جاتے ہیں لیکن بات وہیں کھڑی ہے۔ عوام کی سہولت کیلئے بظاہر ماڈل تھانوںکا قیام اور فرنٹ ڈیسک تو بنا دئیے گئے ہیں لیکن وہاں موجود تو روایتی پولیس اہلکار ہی ہوتے ہیں۔کبھی’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘کا نعرہ بلندکیا گیا تھا جو سفارش پر بھرتیوں اور ترقی کی دھول میں کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے ۔
 ابھی چند روز قبل ایک بھونڈا مذاق دیکھنے میں آیا کہ جنوبی پنجاب کے تمام اضلاع جہاں اندرون سندھ اور قبائلی علاقوں کے بعد عام آدمی سب سے زیادہ پولیس کے ظلم وستم کا شکار ہیں۔ ایک خبر کے مطابق وہاں  663  ٹاؤٹ مافیا کی فہرستیں تیار کی گئیں اور ان ٹاؤٹ مافیاز کی فہرستیں جنوبی پنجاب کے تمام تھانوںکو بھجوا دیں اور ٹاؤٹوں کے تھانہ میں داخلہ پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔ ان فہرستوں کی تیاری کا معیار کیا ہے؟  کس بنیادوں پر یہ بنائی گئی ہیں؟  اس پر توجہ نہیں دی گئی ان میں بعض ان افراد کو بھی شامل کرلیا گیا جو مقامی بااثر لوگوں کے پسندیدہ نہیں تھے جبکہ ان فہرستوں سے نکلے گا کیا یہ واضح نہیں ہے،  کیونکہ ماضی میں بھی اس قسم کی فہرستیں تیار کرکے بعض شرفاء  کو بدنام بھی کیا جاتا رہا ہے ۔ بڑا سوال  یہ ہے کہ جو پولیس حکام  اس قسم کے احکامات جاری کرتے ہیں ان سے پوچھنا چاہئے  کہ جو پولیس اہلکار ان ٹاؤٹوں سے رشوت لینے میں ملوث ہیں ان کے خلاف اب تک کیا کارروائی ہوئی ہے؟  رشوت دینے والوں کی فہرستوں کے ساتھ ساتھ رشوت لینے والوں کی فہرستیں کیوں نہیں شائع کی جاتیں؟ مزہ تو تب تھا اگر ٹاؤٹ مافیاز کے ساتھ ساتھ رشوت خور اہلکاروں کی فہرستیں بھی تھانوں کے باہر لگائی جائیں لیکن ایسا ہوا تو تھانوں میں باقی رہ کیا جائے گا؟  بے گناہوں کو ناکردہ جرائم میں ملوث کرنے والے اہلکار کسی رعایت کے مستحق ہیں؟ چند لوگ  جو پولیس میں اس عزم کے ساتھ بھرتی ہوتے ہیں کہ وہ معاشرے میں جرم کا خاتمہ اور مظلوموں کی داد رسی کرکے نیکی کمائیں گے وہ ساتھیوں اور متعلقہ افسران کے ناروا رویے سے تنگ آ کر اسی ماحول میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرکے ہی سکون محسوس کرتے ہیں۔  تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کو جن بنیادی سہولیات کی ضرورت ہے ان کی فراہمی پر کسی دور میں بھی توجہ نہیں دی گئی ۔ تھانوں میں آبادی اور علاقے کے محل وقوع کے تناسب سے مطلوبہ نفری کی موجودگی بہت ضروری ہے ۔ گاڑیوں کیلئے تیل کی کمی ان کی مرمت و دیکھ بھال اور ان کی حالت زار کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اس کا تعین بھی ہونا چاہئے جب تک پولیس کے محکمے میں احتساب کا کوئی مؤثر نظام قائم نہیں ہوتا اس وقت تک اس میں موجود کالی بھیڑوں کا محاسبہ مشکل ہے پولیس پر عوام کا اعتماد بحال کرنے اور  ان کی تربیت  کرنے کیلئے خصوصی اقدامات  اٹھانے ہوں گے۔   گالم گلوچ سے پرہیز اور سائلین سے مہذبانہ انداز میں پیش آنے کیلئے پولیس اہلکاروں کی دینی و اخلاقی تربیت ناگزیر ہے ۔

ای پیپر دی نیشن