سیاست اور اخلاقی اقدار

کیا سیاست جھوٹ اور فریب کا نام ہے؟ کیا سیاست اپنے اندر کچھ آداب اور قدریں رکھتی ہے؟ ان سوالات کا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔ کچھ ممالک اور تہذیب یافتہ معاشرے ایسے ہیں جہاں ملکی سیاست جھوٹ اور فریب کا نام نہیں۔ جہاں سیاسی اخلاقی قدریں یا روایات زندہ ہیں۔ جہاں جھوٹ بولنے کی کم سے کم سزا بڑے سے بڑے عہدہ سے معزولی ہے۔ جہاں سیاستدانوں کا لب و لہجہ شستہ ہے، گفتگو میں شائستگی اور دھیما پن ہے۔ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاست جھوٹ اور فریب کا دوسرا نام ہے۔ اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے ہمارے سیاستدان ہر قدر اور خوبی کو ملیا میٹ کرنے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ حال ہی میں ایک سیاسی جماعت کے رہنما کے بارے میں ایک دوسری سیاسی جماعت کی خاتون رہنما نے ماؤں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بچوں کو مرد سیاستدان کی تقاریر سے دور رکھیں۔ کہیں ان کی تقریریں بچوں کے اخلاق کو تباہ نہ کردیں۔ سینکڑوں میں سے صرف دو تین حوالے پیش خدمت ہیں۔ 
ایک سابق وزیراعظم شدو مد سے متواتر ایک سازشی بیانیہ پیش کررہے ہیں کہ ان کی حکومت گرانے کے لیے امریکہ نے سازش کی، ثبوت کے طور پر وہ اپنے ملک کے سفیر کے ایک سائفر کا حوالہ دیتے ہیں۔ اپنے ملک کے اہم لوگوں کو میر جعفر اور میر صادق کے القابات سے نوازتے ہیں۔ اپنے سیاسی مخالفین پر ملک سے غداری جیسے سنگین الزامات عائد کرتے ہیں۔ ہر خطاب میں سیاسی حریفوں کے لیے چور ڈاکو، اور قاتل سے کم الفاظ بولتے نہیں۔ پاک فوج سے متعلقہ ادارے آئی ایس پی آر نے متعدد بار وضاحت کی ہے کہ سفیر کے خط سے اور خفیہ اداروں کی تحقیقات سے کسی قسم کی سازش کا حوالہ نہیں ملا اور نہ ہی کسی سازش کا کوئی ثبوت سامنے آیا ہے۔ لیکن عمران خان اور اْسکی حکومت کے وزراء ڈھٹائی سے سازشی بیانیہ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، شاید اس اصول پر عمل کرتے ہوئے کہ اگر ہزار بار جھوٹ بولیں گے تو سچ ہوجائے گا۔ 
دوسرا حوالہ چودھری پرویز الٰہی کا ہے، جو سب سے بڑے صوبہ کی اسمبلی کے سپیکر ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہ چکے ہیں۔ ڈپٹی وزیراعظم پاکستان کا عہدہ بھی ان کے پاس رہا ہے مگر جب سے تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی ہے، چوہدری صاحب تمام اخلاقی حدود پار کرچکے ہیں۔ انھوں نے ایک بار بھی اپنے ڈپٹی سپیکر اسمبلی دوست محمد مزاری پر ہوئے حملہ کی دبے الفاظ میں بھی مذمت نہیں کی۔ پوری قوم نے ٹی وی چینلز پر دیکھا کہ ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری جو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر پنجاب اسمبلی اجلاس کی صدارت کررہے تھے، ان پر ارکان اسمبلی نے لوٹوں کی بارش کی، انھیں سر کے بالوں سے پکڑا گیا، مکے اور گھونسے مارے گئے، اگر ان کے محافظ مزاری صاحب کو بچا کر نہ لے جاتے تو کوئی سانحہ رونما ہوسکتا تھا لیکن مجال ہے کہ چودھری پرویز الٰہی نے آج تک ایک جملہ اس مکروہ فعل کی مذمت میں ادا کیا ہو۔ الٹا انھوں نے الزام لگایا کہ ان پر تشدد کیا گیا۔ اسمبلی فلور پر درجنوں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں مگر چودھری صاحب آج تک ایک ثبوت پیش نہیں کرسکے، پولیس نے انھیں میڈیکل رپورٹ کا کہا جو آج تک جمع نہیں کرائی گئی۔ ایک ایسے واقعہ کے بارے میں سفید جھوٹ بولنا جسے پوری قوم نے تمام ٹی وی چینلز پر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو، اور اس پر صریحاً دروغ گوئی کرنا، یہ سب اگر جھوٹ اور دھوکہ دہی کے زمرے میں نہیں آتا تو اور کیا ہے؟ 
 تیسرا حوالہ ہماری وفاقی وزیر اطلاعات کا ہے جو ایک خاتون ہیں مگر محترمہ ہر بات کے آغاز میں ہی مخالفین کو ایک ہی سانس میں ایک درجن القابات سے نوازنے کے بعد بات شروع کرتی ہیں، نالائق، نکمے، نااہل، منافق، چور، ڈاکو وغیرہ جیسے القابات گردان کی طرح دہراتی ہیں۔ یہ ہی طرزعمل وفاقی وزیر داخلہ اور بعض دیگر وزراء کا بھی ہے جو عمران خان کے لیے فتنہ اور شرپسند جیسے خوفناک الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ میں یہاں امریکی سپریم کورٹ کے جسٹس جان پال سٹیونس (John Paul Stevens) جو 35 سال سپریم کورٹ کے جسٹس رہے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک مرتبہ کسی لاء کالج کی تقریب میں ایک وکیل جو جسٹس سٹیونس کی عدالت میں سالہاسال پیش ہوتے رہے، انھوں نے جسٹس صاحب کی موجودگی میں ان کی ایک خوبی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی عدالت میں کروڑوں اربوں ڈالر کا فراڈ کرنے والے اور قتل جیسے سنگین الزامات کے وہ ملزم پیش ہوتے رہے جن پر الزامات سچ بھی ثابت ہوئے مگر جج صاحب جرح کے دوران ایسے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو جب مخاطب کرتے تو ’آپ‘ کہہ کر بلاتے اور کہتے کہ آپ کی اجازت سے میں سوال پوچھنے کی جسارت کررہا ہوں۔ اتنا شائستہ ،شیریں، اور دھیما انداز گفتگو کہ مجرم کی بھی عزت نفس کا پاس رکھتے۔ جو جرم کیا ہے اس کی سزا مجرم کو ملنی ہی ملنی ہے مگر بحیثیت انسان اس کے مرتبہ کو گھٹانا مقصود نہیں۔سماجی و نفسیاتی علوم کے ماہرین اس پر بہتر رائے دے سکتے ہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کے اس رویہ کی وجہ کیا ہے؟ مجھے جو وجہ نظر آتی وہ یہ ہے کہ شاید عوام یہ سب سننا چاہتے ہیں۔ سیاستدان بخوبی جانتے ہیں کہ بہتان اور دشنام طرازی کا انھیں کوئی سیاسی نقصان نہیں ہوگا مگر اب سوچنا یہ ہے کہ اس کا تدارک کیسے کیا جائے؟ پارلیمان اس پر قانون سازی کرسکتی ہے کہ وہ غیر پارلیمانی الفاظ کا تعین کردے جو پارلیمان کے اندر ہی نہیں باہر بھی نہ بولے جاسکیں، اعلیٰ عدالتیں تھوڑی سختی سے ہتک عزت کے قوانین پر سخت فیصلے دیں، قید اور بھاری جرمانوں جیسی سزائیں اگر دے دی گئیں تو لوگ تیر کی طرح سیدھے ہوجائیں گے، اس کے ساتھ ساتھ سکول، کالجز، اور جامعات میں ایسے ادارے اور مضامین متعارف کرائے جائیں جو لوگوں کی اخلاقی و سماجی تربیت کریں، لوگوں میں سماجی و سیاسی شعور پیدا کریں، لوگوں میں امانت اور دیانت جیسی اعلیٰ صفات پیدا کرنے کے لیے دن رات کوشاں رہیں۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی فکر کرنی چاہیے کہ ہم انہیں کیسا معاشرہ دے کر جارہے ہیں جہاں جھوٹ اور بہتان طرازی طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ ابھی سے سوچیں ورنہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں اچھے الفاظ میں یاد نہیں کریں گی۔ 

ای پیپر دی نیشن