دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں سے تین درجن ممالک ایسے ہیں جو ویلفئیر اسٹیٹ ہیں۔ ان کے علاوہ 100 سے زائد ممالک میں ایسانظام ہے جس میں سینئر شہریوں کی بہترین دیکھ بھال کے علاوہ پینشنرز کی آئیڈل پینشن اور دیگر مراعات و وظائف کا طریقہء کار ہے۔ معذور اپاہج یتیم لاوارث بچوں، بیوائوں اور مستحق ضرورت مندوں کی با غیرت اور خا موش امداد کی جاتی ہے جس سے اُن کی عزتِ نفس بھی مجروع نہیں ہوتی۔ اسکے علاوہ بیرون ممالک میں شا عروں ادیبوں دانشورںصحا فیوں اور اسا تذہ کے لیے خصو صی فنڈز مختص ہو تے ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو جائے یا کسی حا دثے کا شکار ہو جائے یا اُسے مالی امداد کی ضرورت پڑ جائے تو حکومت نہایت خا موشی اور رازداری سے قوم کے ایسے ہو نہار، ذہین، محنتی اور جو ہر قا بل شخصیات کی مدد کرتی ہے جس سے اُن کی عزت بھی مجروع نہیں ہوتی اور انھیں شدید تکلیف کی حالت میں ریلیف مل جاتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ماضی میں حکومتیںایسے کئی ادارے قا ئم کرتی رہیں جنھیں آج بھی کروڑں اربوں روپے کی گرانٹس ملتی ہیں مگر یہ ادارے، اِنکے سربراہ، ملازمین اور انکے ہرکارے مل بانٹ کر کھا جا تے ہیں یا پھر یہ گرانٹس اقربا پروری اور سفارش کی نظر ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے پینشن میں انتہائی کم اضافے اور پینشنرز کی مالی مشکلات پر جو کالم لکھا تو اُس پر کئی پینشنرز رو پڑے اور انھوں نے شکریہ کے ساتھ بے انتہا دعا ئیں دیں مگر ’’شکریہ‘‘ کا حق تب ادا ہوتا جب مجبور، لاچار، بیمار اور بد حال پینشنرز کی پینشن میںحکومت تنخواہوں کی طرح15 فیصد اضافہ کرتی۔ خیبر پختونخواہ حکومت نے پینشن میں پندرہ فیصد اضافہ کر کے اپنے ہزاروں لاکھوں پینشنرز کی دعا ئیں لی ہیں۔ قبل ازیں پنجاب حکومت نے ہمیشہ اعلیٰ روایات اور ریلیف کا برسوں سلسلہ جاری رکھا لیکن بزدار حکومت نے پنجاب کو با لکل تباہ برباد کر ڈالا۔ حمزہ شہباز شریف تک غا لباً یہ کالم نہیں پہنچا ورنہ وہ پینشنرز کی مشکلات اور مصائب کو پیش نظر رکھ کر اپنے تایا اور والد کی طرح پینشن میں پندرہ فیصد اضا فہ کرتے۔ جس سے انھیں بہت دعا ئیں اور دوام ملتا۔ حمزہ شہباز شریف میں عوام کی خدمت کا زبردست جذبہ ہے اور وہ اپنے عظیم دادا میاں شریف کی طرح چیرٹی کرنا جانتے ہیں۔میاں شریف کی خاص بات یہ تھی کہ وہ خاموشی سے بہت لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ شا ید اسی لیے اللہ نے انھیں چھپر پھاڑ کر دیا تھا۔ اِس سلسلے میں میاں نواز شریف بھی اپنے والد سے چار قدم آگے تھے ۔ اللہ کے بندوں کی یہ خا ص ادا ہے کہ وہ لوگوں کی مدد کے کے سکون حا صل کرتے ہیں۔ جناب مجید نظا می مرحوم کو اپنی آنکھوں سے چیرٹی کرتے دیکھا ہے۔ انہوں نے کئی بیوائوں کے وظیفے مقرر کر رکھے تھے۔ وہ بہت خا موشی سے غریبوں اور ضرورتمندوں کی مالی امداد کرتے تھے۔ سیٹھ عابد مرحوم بھی لوگوں کی مدد کرتے تھے اور ملک ریاض کے بارے میں بھی یہ خبریں مشہور ہیں کہ وہ امدادی کاموں میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ سب لوگ اربوں کے مالک تھے لیکن بات سخاوت، رحمدلی اور انسانیت کی ہو تی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ لاکھوں روپے سے ہی کسی کی مدد کرسکتے ہیں کیونکہ ایک مرتبہ شاپنگ سے واپسی پر ایک بوڑھے شخص کو جو دو سوٹ اسکی بیٹی کے نکاح پر دینے پر جو سکون اور خوشی مجھے نصیب ہوئی یہ چیز ہماری زندگی کا حصہ بن گئی۔ اُس کی دی ہوئی دعا ئیں گزشتہ 18سالوں سے سا ئبان کی طرح ہماری حفا ظت کر رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میںقرشی انڈسٹریز کے چیرمین آفتا ب قرشی صا حب نے انڈس ہسپتال کی افتتاحی تقریب پر دو ارب کی ڈونیشن دی جس سے مستحق مریضوں کا مفت علاج ہو گا۔ یہ کتنا بڑا کارِخیر ہے۔ اسی طرح ایپٹما کے صدر گوہر اعجاز صا حب نے غریب مریضوں کے علاج کے لیے ایک ارب کی مالی امداد کی اور اس مو قع پر وزیر اعظم شہباز شریف سے کہا کہ وہ ایک اوپن چیک بھی دینا چا ہتے ہیں تاکہ مستحق مریضوں کا فری علاج ہو سکے جبکہ اس سے پہلے وہ کئی ہسپتا لوں خصوصاً جناح ہسپتا ل میں تعمیر بلاک، لفٹ اور وہیل چیرز وغیرہ ڈونیشن کر چکے ہیں۔ اللہ یو نہی کسی پر مہربان نہیں ہو تا۔ چیرٹی وہ واحد ذریعہ ہے جو اللہ کی نظر میں خدمت کا سب سے مقبول ذریعہ ہے۔