حضرت ہاجرہؑ اپنے صاحب زادے حضرت اسمٰعیل ؑ کےلئے پانی کی تلاش میں جن دو پہاڑیوں کے درمیان سرگرداں ہوئی تھیں ان میں سے ایک کا نام صفا اور دوسری کا مروہ ہے۔ درمیان کا حصہ نشیب میںتھا ۔ایک پہاڑی سے اُتر کر جب دوسری پہاڑی پر چڑ تی تھیں تو نشیبی جگہ سے دوڑ کر گزرتیں اور باربار اپنے بچے کی طرف دیکھتی تھیں مباداکہ کوئی جنگلی جانور بچے کو گزندنہ پہنچادے۔مناسکِ حج کی اصطلاح میں صفا اور مروہ کے درمیان سات دفعہ آنے جانے کو سعی کہاجاتاہے اور جس جگہ سعی کی جاتی ہے اُس کو عربی زبان میں مسعٰی کہتے ہیں ۔1069 ہجری تک چونکہ مسجد الحرام میںکوئی اضافہ تو سیع نہیںکی گئی تھی اسلئے آس پاس کی مکہ کی آبادیاں مسجد الحرام کے ساتھ آکر مل گئی تھیں اور مسعٰی کے دونوں جانب تعمیرات سے ےہ حصہ الگ تھلگ ہوگیاتھا،اور قریب ہی رہائشی مکان اور بازار ہونے کی وجہ سے خرید وفروخت کے باعث سعی کرنے والوں کےلئے رکاوٹ پیداہوئی تھی۔حرمین شریفین اور مقامات مقدسہ کی خدمت ،توسیع ،تزئےن و زیبائےش سعودی فرمانرواﺅں کا عظیم کارنامہ ہے اس کا سہرا سعودی حکومت کے بانی عبدالعزیز آل سعود کے سر ہے۔ اُنہوں نے 1368ہجری میں مسلمانان عالم کو مثردہ سنایا کہ وہ حرمین شریفین کی توسیع وترقی کا عزم کرچکے ہیں اور اس مقدس کام کی ابتدا حرم نبوی سے کی جائےگی ۔چنانچہ ان کی کاوشوں اور ذاتی دلچسپی کے باعث مسجد نبوی کو نہ صرف خوبصورت ترین بنادیاگیاہے بلکہ اُ س کے اندر وسعت پیداکرکے زیادہ سے زیادہ نمازیوں کےلئے گنجائش بھی پیدا کردی گئی ہے۔مسجد نبوی کے کام کو پاےہ¿ تکمیل تک پہنچانے کے بعد مکہ معظمہ میں مسجد الحرام کی توسیع و ترقی کا منصوبہ تیارکیا گیا اور شاہ سعود بن عبدالعزیز نے 4ربیع الثانی 1375 ہجری 1955 ءمیں اس منصوبے پر عملد ر آمد شروع کردیا۔اس منصوبے میں اس امر کا خاص طورپر خیا ل رکھا گیا کہ اُسی سال حج کےلئے آنے والے حجاج کی آمد سے پہلے پہلے اس کام کو پاےہ ¿ تکمےل تک پہنچادیا جائے ۔ساتھ ہی صفا اور مروہ کی عمارت تعمیر کرنے کاکام بھی شروع کردیاگیا۔چھ ماہ کے قلیل عرصہ میں ابتدائی کام ختم کرنے کے بعد 23شعبان 1375ھ کو نئی عمارت تعمیر کرنے کاسنگ بنیاد رکھا گیا۔سب سے اہم کام ےہ ہوا کہ صفا مروہ کی سعی کرتے وقت ملحقہ بازاروں سے شور و غوغا اور ٹریفک کا جو مس¿لہ پیدا ہوجاتاتھا وہ مسعٰی کے اوپر عمارت تعمیر کرنے سے ختم ہوگیا اور اس مقام کا تقدس بحال ہوگیا۔سعی کرنے والوں کو ہزار ہاسال سے جو دقت پیش آرہی تھی وہ یکسر ختم ہوگئی اوریک سوئی سے مناسکِ سعی مکمل کرنے کا موقعہ میسر آگیا ۔ےہ سعودی فرمانرواﺅں کا عظیم کارنامہ اور حجاج وزائرین پر بہت بڑا احسان ہے ۔اسکے بعد مسعٰی کا حصہ مسجد الحرام سے
ملحق ہوگیا۔صفا اور مروہ کی عمارت تعمیر کرنے کاکام جب شروع کیاگیا تو شرع نقطہ ¿ نگاہ سے جیدّ علما کرام سے اِسکی تعمیر کےلئے فتویٰ حاصل کیاگیا۔ صفا اور مروہ کے پہاڑوں اور ان کے درمیان جگہ کے اوپر کنکریٹ سیمنٹ اور سریا کے بیم بناکر ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کی گئی اور اس عمارت کو دو منزلہ بھی کردیا گیا،تاکہ حج کے ایام میں بالائی منزل پر بھی سعی ہوسکے اور حجاج کو ہجوم کی وجہ سے دقت پیش نہ آئے اس کا دوسرا فائدہ ےہ بھی ہواکہ دونوں مقامات پر نماز پڑھنے کےلئے بھی بہت گنجائش پیدا ہوگئی ۔اب صفا سے مروہ تک کا فاصلہ 394.5میٹرہے جو تقریباً پونے دو فرلانگ بنتاہے ،اور سات چکر لگانے کے بعد کل فاصلہ تقریباً پونے دو میل یا تقریباً 3کلو میٹرہے ۔عمارت کی چوڑائی 20میٹرہے ،اورپہلی منزل کی بلندی 12میٹرہے جبکہ دوسری منزل کی بلندی 9میٹرہے۔نچلی منزل کے مشرقی جانب کھلنے والے دروازوں کی تعداد سولہ ہے ۔گراﺅنڈ فلورپر سعی کرنے والوں کے اوپر سے گزرکر حرم پاک میں داخل ہونے کےلئے یا باہر نکلنے کےلئے سعی کے اوپر پل بنادئےے گئے ہیں جس کی وجہ سے سعی میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی ۔صفا اور مروہ کی اوپر کی منزل پر جانے کےلئے دو دروازے ہیں ایک صفا کے پاس اور دوسرا مروہ کے پاس ۔مسجد کے اندرونی حصہ سے صفا اور مروہ کی دوسری منزل پر جانے کےلئے بھی دو سیڑھیاں ہیںایک باب الصفا کے پاس اور دوسری باب السلام کے پاس ۔زمینی منزل میں صفا اور مروہ کے درمیانی 20میٹر چوڑے راستے کو پیدل چلنے والوں کےلئے تین، تین فٹ اونچی دو دیواریں تعمیر کرکے دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے ایک صفا سے مروہ جانے کےلئے اور دوسرا مروہ سے صفا واپس آنے کےلئے ۔ ان دونوںچھوٹی دیواروں کے درمیانی دو طرفہ راستے کو پھر دو حصوں یا راستوں میں بانٹ دیاگیاہے۔ےہ دو طرفہ راستہ ان بیماروں اور معذوروں کےلئے مختص کیاگیاہے جو پیدل سعی نہیںکرسکتے اور کرائے یا سرکاری و ہیل چےئر پر سعی کرتے ہیں۔حج کے ایام میں سنکڑوں وہیل چےئر والے اپنی باری کے انتظار میں کھڑے دکھائی دےتے ہیں اور سعی کرانے کا کراےہ وصول کرتے ہیں ،جبکہ سرکاری وہیل چےئر پاسپورٹ وغیرہ ضمانت کے طور پر جمع کرانے کے بعد حاصل ہوتی ہے جس کا کوئی کراےہ نہیں ہوتاالبتہ اُسے معذور کے عزیز یا رشتہ دار وغیرہ چلاتے ہیں۔صفا ،مروہ کی پہاڑیوں اور مسعٰی کے اوپر دو منزلہ عمارت بن جانے کا فائدہ نہ صرف سعی کرنے والوں کو ہواہے بلکہ پہلے مشرقی علاقوں سے آنے والا بارش کا جو پانی مطاف کے اندر جمع ہوکر نقصان پہنچاتاتھا اس عمارت کی تعمیر سے سیلاب کاپانی حرم کے اندر داخل ہونے کا خدشہ دورہوگیا ساتھ ہی سیلاب کے پانی کی نکاسی کا بھی معقول انتظام کردیاگیاہے ۔بارش کے پانی کو مسجد الحرام کے اندر جانے سے روکنے کےلئے ایک بہت بڑا زمین دوز نالہ تعمیر کیاگیاہے جو شارع قشاشےہ کے جنوبی جانب زمین کے اندر سے ہوتاہواشارع جدید تک چلاجاتاہے ےہ زمین دوز نالہ پانچ میٹر چوڑا اور تقریباً 6میٹر اونچا ہے ۔
اس طرح سیلاب کے اس پانی کو جو کبھی کبھار صفا اور مروہ کے درمیان سے گزر کر مسجد کے اندرونی حصہ کو نقصان پہنچاتاتھا اس نالے کے ذریعے اس کا رُخ دوسری طرف موڑ دیاگیاہے۔صفا پہاڑی کے اوپر صرف چاند والا ایک مینا رہے اور 35میٹر قطر کا ایک گنبد ہے جس کے اندرونی حصہ کو قرآن کریم کی سورہ¿ البقرہ کی آیت نمبر 158سے منقش کیاگیاہے ۔ترجمہ :”تحقیقاًصفااور مروہ منجملہ یادگار (دین ) خداوندی ہیں۔سو جو شخص حج کرے بیت اللہ یا (اس کا ) عمرہ کرے اس پر ذرا بھی گناہ نہیں ان دونوں کے درمیان آمدورفت کرنے میں ( جس کا نام سعی ہے) اور جو شخص خوشی سے کوئی امر خیر کرے حق تعالیٰ ( ا س کی بڑی ) قدر دانی کرتے ہیں (اور اس خیرکرنے والے کے نیت وخلوص کو ) خو ب جانتے ہیں“۔طلوع اسلام سے پہلے بھی صفا اور مروہ کی سعی کی جاتی تھی مگر دونوں پہاڑیوں پر دو بُت رکھے ہوئے تھے مشرکین ان دوبتوں کی تعظیم کو سعی خیال کرتے تھے ۔ادھر انصار مدینہ پہلے ہی صفا اور مروہ کی سعی کرنا معیوب سمجھتے تھے ۔حکم خداوندی سے دونوں عقائد کی نفی کرتے ہوئے وضاحت کی گئی ہے کہ صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں ان کے درمیان آمدورفت کرنا صرف اللہ کی خوشنودی کےلئے ہے نہ کہ کسی اور کےلئے اور ساتھ ہی ےہ بھی واضح کردیاگیاہے کہ صفا مروہ کی سعی کرنے میں نہ کوئی حرج ہے اور نہ ہی کوئی گناہ ہے۔آج کل سعی تین مقامات پر کی جاسکتی ہے ۔گراﺅنڈ فلور،اُس کا چھت اور آخری چھت ،زمینی منزل پردونوںپہاڑیوں کو کاٹ کرصرف پہاڑیوں کے نشانات چھوڑ گئے تھے ۔اب صرف صفا کا نشان باقی ہے ۔مروہ کا ختم ہو چکا ہے پہلی منزل پر سعی کرنے والوں کو صفا کے بالائی حصہ میں ایک گول چکر کے گرد چکر لگا کر سعی کا پھیرا مکمل کرنا پڑتاہے اور اوپر کی دونوں منزلوں میںپہلے سعی کرنے کےلئے آنے اور جانے کا راستہ جداجدانہیں تھا۔پہلے درمیانی منزل پر پارٹیشن کرکے آنے جانے کا راستہ الگ کردیاگیاتھا اب سعی کےلئے آخری چھت پر آنے جانے کا راستہ بھی الگ کردیا گیاہے ،چھتوں پر سعی کرنے کےلئے ،الیکٹرک کی سیڑھیوں کی مدد سے پہنچاجاسکتاہے اور دونوں چھتوں کو مروہ کی طرف سے بیرونی سڑکوں سے بھی ملادیاگیاہے۔بابِ صفا اور بابِ الفتح کے قریب بجلی کی سیڑھیاں تعمیر کی گئی ہیں۔البتہ تین دوسری سیڑھیوں سے بھی اوپر پہنچاجاسکتاہے جو مسجد الحرام کے آخری چھت پر پہنچاتی ہیں۔مسعٰی میں دونوں جانب وال فین لگے ہوئے ہیں او ر ساتھ ہی ٹھنڈی ہواکےلئے ائےر کولر بھی لگے ہوئے ہیں ۔مسعٰی میں جابجا آبِ زم زم موجود ہوتاہے ۔ہجوم کے دنوں میں واٹر کولر ہٹا دئےے جاتے ہیں ۔تھوڑے تھوڑے فاصلے پر واٹر ٹینک رکھے ہیںجن کے ساتھ آب زم زم کی ٹونٹیاں بھی لگی ہوئی ہیں ۔مسجد الحرام اور مسعٰی کا فضائی منظر دیکھا جائے تو انگریزی زبان کا چھوٹا ڈی لگتاہے