آغا ریاض الاسلام، یاد آئے بہت یاد آئے! 


آٹھ سال قبل 23 جون،5 رمضان المبارک،آغا ریاض الاسلام کی زندگی کا آخری دن تھا وہ اپنا آخری روز گزار کر رحمت لعالمین کے حقیقی شیدائی کے طور رب العالمین کے حضور پیش ہوگئے ۔شہر کو ایک اتنا بڑا غم دے گئے کہ آج تک راولپنڈی ان کی یاد میں سوگ وار ہے،راہ عظیمت کا عظیم مسافر مرددرویش، آغا ریاض السلاممرد مجاہد ممتاز سیاسی رہنما تھے وہ مجاہد کشمیر میر واعظ مولوی محمد فاروق اور راولپنڈی میں کشمیر ی سیاست کے سرخیل شرافت کی پہچان شاہ غلام قادر کے عزیز تھے ۔ انہوں نے شہر کی ترقی اور تعمیر کے لیے دن رات کام کیا اور ہر سماجی برائی کے خلاف ہمہ وقت جہاد میں مصروف رہے۔ وہ راولپنڈی کے مقبول ترین سیاسی رہنما تھے، جنہوں نے جرائت مندانہ کردار سے ہر سماجی برائی کو شکست دی، مرحوم نے جمہوریت کیلئے بڑی ماریں کھائی ہیں انہوں نے بھاگنے والوں کی طرح کمر پر کوئی چوٹ نہیں کھائی سیاست میں ہر وار اپنے سینے پر کھایا ہے، وہ نہائت جرامت مند تھے تاہم آخری دنوں میں انہیں بہت پریشان دیکھا گیا، اتافق سی جب انہیں راحت قدوسی، ڈاکٹر فرخ اور راقم ملاقات کے لیے گئے تو ان کی چمک دار آنکھوں میں آنسو تیرتے ہوئے دیکھے وہ بے اعتناعیوں پر رو دیے تھے بہر حال وہ راولپنڈی کا ایک بڑا نام اور عوام دوست کردار تھا، وہ بلا کے مقرر تھے، راولپنڈی میں نذر حسین کیانی اور سید ذاکر حسین شاہ بھی مقبول مقرر تھے۔ آغا ریاض الاسلام نے جتنے بھی الیکشن لڑے ہر بار ووٹرز کے دلوں میں اترے اور عوام کے دلوں میں منتخب ہوتے رہے، اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ جو رات قبر میں آنی ہے وہ آکر ہی رہے گی موت کے خوف سے وہ عوامی خدمت کا کام نہیں چوڑ سکے ان کے انتقال پر واقعی شہر میں صف ماتم بچھ گئی تھی اس روز راولپنڈی کا ہر شہری غم ذدہ تھا راولپنڈی میں میں اتنا بڑا سوگ کسی سیاسی رہنماءکی رحلت پر نہیں دیکھا، ان کی نماز جنازہ ان کے دفتر رابعہ منزل کے باہر لیاقت روڈ پر ادا کی گئی، وہ ڈھوک الٰہی بخش کے قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے،آغا ریاض الاسلام 1979 کے بلدیاتی انتخابات میں راولپنڈی کے میئر منتخب ہوئے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے فوراً بعد احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھاوہ راولپنڈی سے ایم پی اے منتخب ہوئے اور 1996 میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے لیکن ایک سال بعد پارٹی چھوڑ دی۔انہوں نے 2001 کے بلدیاتی انتخابات میں اہم کردار ادا کیا 2002 کے انتخابات میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا تاہم بعدمیں، پیپلپزپارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ نواز میں شامل ہوگئے جب مسلم لیگ(ن) میں شامل ہورہے تھے اس وقت انہیں چوہدری نچار علی خان نے بھی فون کرکے مطلع کرنے کا کہا تھا تاہم وہ ان کی جانب سے فون کا انتظار ہی کرتے رہے اس کے باوجود وہ مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوئے تاہم حقائق یہی ہیں کہ انہیں مقامی لیڈر شپ نے دل سے قبول ہی نہیں کیا اور مسلسل انہیں نظر انداز کیا گیا، اس لیے کہ وہ شہر کی سیاست کا ایک بڑا نام تھے، ان کا نام گھر گھر میں گونجتا تھا، سیاست میں وہ کمالات دکھاتے رہے، طلبہ سیاست کے بھی شاہ سوار رہے، اللہ نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا، ان کی سیاسی زندگی نشیب و فراز کا شکار رہی تاہم ذاتی زندگی میں اعتدال اور توازن کو قائم رکھا، بے قدری سیاست ان کے لیے سازگار نہ رہی ان کی سیاسی زندگی عروج اور زوال کی ایک حیرت انگیز داستان ہے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے پسماندگان کو صبر دے۔ ان کی موت نے راولپنڈی کی سیاسی فضا کو سوگوار کر دیا ہے، ان کا دکھ ہر دل نے محسوس کیا، ایک بہت ہی اعلیٰ پایے کا شخص اب راولپنڈی میں کہاں ملے گا جہاں اب صرف سیاسی المیے ہی رہ گئے ہیں انہوں نے شان سے سیاست کی اور عوام کی بے پناہ محبت سمیٹ کر دنیا رخصت ہوئے جس قدر انہیں محبت ملی اور آج تک ان کا نام جس احترام سے لیا جاتا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، وہ اس شہر کے لیے روشنی تھے، یوں لگتا ہے سورج کی طرح طلوع ہونے والا ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح ڈوب گیامرحوم بااخلاق، سنجیدہ اور قابل ِذکر شخصیت تھے، ا±ن کی وفات سے سنجیدہ فکر اور مثبت انداز فکر کے حامل حضرات میں سے ایک اور کی کمی ہو گئی ہے۔اللہ ا±ن کی مغفرت فرمائے ملکی سیاست اور راولپنڈی کے 
لیے ان کی سیاسی خدمات فراموش نہیں کی جاسکتیں راولپنڈی کا ہر شہری ان کی سیاسی سماجی خدمات کامعترف ہے، اللہ ا±ن کو اپنے جوارِ رحمت میں مقام عطا فرمائے وہ سیاست میں عوام کی محبت اور اپنی محنت کے بل پر آگے بڑھے، اور شہر کی گلیوں، بازاروں اور تھڑوں سے طویل عرصہ وابستہ رہے آخر وقت تک وہ شہر کے باسیوں سے جڑے رہے اللہ تعالیٰ نے ا±نہیں غیر معمولی صلاحیتیں عطا کی تھیں سیاسی کارکن کے طور پر انہوں نے اپنا بھرپور نقش جمایا،اور بڑے بڑے ان کی پیروی پر مجبور ہوئے۔ان کا مطالعہ وسیع تھا، کام ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا،حالات و واقعات کے پس منظر پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے۔انہوں نے سماجی خدمت اور سیاست کو ایک نیا رخ دیا،اوروہ عوامی خدمت کا نصاب پڑھانے والی ایک چلتی پھرتی یونیورسٹی تھے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے،اور ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔

ای پیپر دی نیشن