چوہدری منور انجم
نقطہ نظر
شہید بینظیر بھٹو 21 جون 1953 کو پیدا ہوئیں، انہوں نے 1988 سے 1990 اور 1993 سے 1996 تک پاکستان کی 11ویں اور 13ویں وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ایک مسلم ملک میں جمہوری حکومت کی سربراہی کرنے والی وہ پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ دنیا کی سیاسی تاریخ میں شائد ہی کوئی ایسی خاتون گزری ہو جس نے بی بی شہید کی طرح طویل جدو جہد کی ہو جس نے تمام مصائب اور الم بھی برداشت کئے ہوں اور اپنے پیاروں کو اپنے سامنے مرتے بھی دیکھا ہو اور حوصلہ اور ہمت بھی نہ ہاری ہو ایسا وصف صرف بی بی شہید میں تھا۔ ان کی پوری کی پوری زندگی پالنے سے لیکر وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے تک عظیم جد و جہد میں گزری جس کا زکر اپنے پرائے اور مخالفین بھی کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کرتے پائے گئے ہیں۔ بلکہ رنج و الم مصائب ظلم و جبر پر مبنی طویل جد و جہد کا استعارہ بن کر دنیا عالم میں اپنا ایک مقام بنایا۔ آج سیاسی جدو جہد کی تاریخ مرتب کرنے والے مورخ بی بی شہید کے زکر کے بغیر اپنی ریسرچ ادھوری سمجھتے ہیں۔ آپ کو دنیا بھر میں سیاسی تاریخ پر لکھی گئی کوئی بھی کتاب بی بی شہید کے زکر سے معموور نظر آئے گی۔پاکستان کا مثبت چہرہ اجاگر کرنے میں بی بی شہید اور بھٹو خاندان کو رب کریم نے وہ عزت ومقام بخشا ہے جو پاکستان کے کسی بھی سیاسی نابغے کے نصیب میں نہیں آیا۔
بی بی شہید نے ناز و نعم میں پرورش پائی تھی لیکن جس طرح کم عمری میں ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے، اگر ان کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو بِکھر جاتی۔ وہ 26 سال کی تھیں جب ان کے والد کو ایک آمر کے حکم پر اس کے پروردہ ججوں کے آرڈر پر پھانسی دی گئی، اس کے بعد ان کے لیے طویل جدوجہد بھری زندگی کا آغاز ہوا۔ بی بی شہید نے پاکستان میں بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد خود ضیا حکومت کے بدترین ظلم و جبر کا سامنا کیا تھا، لاٹھیاں کھائیں، جیلیں کاٹیں لیکن کوئی ظالمانہ ہتھکنڈا اس نازک وجود کو نہ توڑ سکا۔ اس مشکل ترین عملی سیاست، قید و بند کی مصیبتوں اور مارشل لا کے سخت و کڑے ماحول میں ’اپنوں کے مختلف رویوں اور کرداروں‘ نے بی بی شہید کی زبردست سیاسی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت میں وہ تاثر بھی پیدا کر دیا جسے اْن کے حامی مخالفین دونوں اْن کی بہترین انتظامی صلاحتیں قرار دیتے رہے ہیں۔
میں نے بی بی شہید کو مارشل لا کے خلاف طویل جدوجہد کرتے، جیلیں کاٹتے اور 2 مرتبہ وزیرِاعظم بننے کے مراحل سے گزرتے دیکھا ہے۔ ہمارے دل میں بی بی شہیدکی یادوں کا ایک گلستان آباد ہے، آج بی بی شہید کا جنم دن ہے اس دن کی مناسبت سے ان کی شان میں لفظوں سے انہیں خراج تحسین پیش کرنے کی یہ ادنی سی کوشش سمجھیئے، کیونکہ وہ ان سب باتوں سے ماورا تھیں۔ ان کی زندگی کا ہر لحمہ پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور امن،پاکستانی عوام کی ترقی اور خوشحالی کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی فلاح و بہبود میں گزار، پاکستان کی تاریخ میں اعلی پائے کی تعلیم یافتہ وزرات عظمی کے منسب پر فائز ہونے والی وہ پہلی اور آخری خاتوں تھیں۔ بی بی شہید کی بچپن کی زندگی تعلیم، سیاسی جد و جہد اور شہادت کے بعد دنیا بھر میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ ان کی زندگی کا ایک ایک لحمہ، اٹھنا بیٹھنا بولنا،ملنا جلنا سٹائل تک تاریخ کے اوراق میں لکھا جا چکا ہے اس لئے ہمارے پاس ان کی بہترین یادوں، ان کے کارناموں،عوامی فلاحی منصوبوں ملک کی ترقی کے لئے کئے گئے کاموں کا وافر ذخیرہ ہے جس پر کئی ضخیم کتابیں لکھی جاسکتیں ہیں بلکہ لکھی جارہی ہیں۔اس خاندان کے ساتھ ساتھ ہونے والے ظلم و ستم پر تاریخ لکھنے والے مورخ بھی روتے ہوں گے، لیکن قدرت کا انصاف دیکھیے اس خاندان کے ساتھ ظلم و جبر کا رویہ رکھنے والوں کو قدرت نے نشان عبرت بنا دیا آج کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں۔
بی بی شہید نے اپنے دورِ اقتدار میں عورتوں کے حقوق کے لیے مثالی اقدامات کیے جن میں فرسٹ وومن بنک، وومن پولیس اسٹیشن اور یونیورسٹیز میں وومن اسٹڈی سینٹرز کا قیام، سرکاری ملازمتوں میں خواتین کے لیے 5 فیصد کوٹے کا اجرا، لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام، خواتین کی ترقی کے لیے وفاقی وزارت کے قیام جیسے اقدامات شامل ہیں۔پاکستان میں پہلی بار نوجوانوں کے امور کے لیے علیحدہ وزارت کا قیام، نئی وزارت برائے انسداد منشیات کا قیام،منشیات کے عادی افراد کی صحتیابی کے لیے ملک بھر میں کلینک قائم کیے گئے،منشیات کی اسمگلنگ میں نمایاں کمی،ملک کے ہر شہر اور قصبے میں جدید سڑکوں کی تعمیر،تیل اور گیس کی پیداوار میں 22 فیصد اضافہ،ملک بھر میں لاکھوں صارفین کو گیس کی فراہمی،اس وقت 3.88 بلین روپے کی لاگت سے 3 میگا صنعتی منصوبوں کی بنیاد رکھی گئی جس میں ایک پیٹرو کیمیکل پروجیکٹ اورٹویوٹا کرولا پلانٹ 580 ملین روپے کی سرمایہ کاری شامل تھی۔کراچی اسٹاک ایکسچینج میں تاریخی اضافہ،بدعنوانی کی حوصلہ شکنی کے لیے سونے کی درآمد پر سے پابندی کا خاتمہ،مہنگائی کی شرح میں 9% سالانہ سے 5% تک کمی،پیپلز پروگرام کے تحت مفت سائیکلوں کی تقسیم،پاکستان کے ٹیلی کام سیکٹر میں بے مثال ترقی، صرف ایک سال میں 64400 نئی ٹیلی فون ایکسچینج لائنیں، 99391 ٹیلی فون کنکشنز اور 14 اضافی شہروں کو ٹیلی فون کے ذریعے منسلک کرنا۔بلوچستان ٹیکسٹائل ملز کو دوبارہ کھولنا جو 1983 میں بند کر دی گئی تھی،پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک سال میں 4000 سے زائد دیہاتوں کو بجلی کی فراہمی،بجلی کے کنکشن کے لیے درخواست دینے والے کو 35 دن یا اس سے کم میں کنکشن کی فراہمی،پاور سیکٹر میں پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی سیلاب سے فصلوں اور کسانوں کی املاک کو پہنچنے والے نقصان کو روکنے کے لیے دور دراز کے علاقوں میں سیلاب پر قابو پانے کیلئے ضروری اقدامات،فرسٹ وویمن بینک کا انعقاد،صنفی ترقی اور خواتین کے مخصوص مسائل کو حل کرنے کے لیے سب سے پہلے خواتین کی وزارت کا قیام،زمین کو نمکیات سے صاف کرنے کی اسکیمیں،تین سال میں لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کی حکمت عملی،ملک بھر میں 445 پوسٹل آفسز کا افتتاح،کراچی میں پورٹ قاسم کی توسیع،کراچی اسٹیل ملز کو پہلی بار 1989 میں ان کے دور حکومت میں منافع بخش بنایا گیا تھاہیوی مکینیکل کمپلیکس خسارے میں چلنے والے ادارے سے منافع بخش بنا۔ ان کے دور حکومت میں یہ مختصر سے کارنامے ہیں ورنہ اگر دیکھا جائے تو اس ملک کی تعمیر و ترقی کے ساتھ عوامی فلاح کے منصوبوں کے لئے قانون سازی میں بھٹو خاندان کا ہی نامک سرفہرست نظر آتا ہے۔
لیکن افسوس صد افسوس سماج اور سرکار دونوں نے بی بی شہید کی حفاظت پر توجہ نہ دی جنرل مشرف کی حکومت نے انہیں معمولی سیکورٹی دی حالانکہ حکومت کو اچھی طرح علم تھا کہ بے نظیر بھٹو کی جان حقیقی خطرے میں تھی۔ بقول ممتاز صحافی سہیل وڑائچ کے اگر محترمہ الیکشن جیت کر وزیر اعظم بن جاتیں تو محترمہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا رزمیہ کردار بن کر ابھرتیں۔مذہبی انتہا پسندی کے خلاف سالہاسال جو تساہل برتا گیا بیانیے میں جو الجھاؤ رہا وہ محترمہ کے آنے سے دم توڑ جاتا اور جو کامیابی ہم نے آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر سالوں میں حاصل کی وہ ہم شاہد مہینوں میں کر لیتے۔بے نظیر زندہ ہوتیں تو پاکستان پر طالبان اور انتہا پسندوں کی در پردہ امداد کا الزام نہ لگتا۔ محترمہ زندہ ہوتیں تو انتہا پسندوں کے خلاف فتح یاب ہو کر دنیا بھر کے دورے کرتیں دنیا بھر سے پاکستان کی خوشحالی کے لیے گرانٹ اور امداد لے کر آتیں۔
ملک کی خدمت کا جو سفر ذولفقار بھٹو شہیدنے شروع کیا بی بی شہید نے اسے جاری رکھا اور یہ سفر کبھی رکے گا نہیں اب بلاول بھٹو زرداری دنیا بھر میں اس مشن کو لے کر پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں اور ان کی تربیت اور دنیا کے ساتھ چلنے بات کرنے بولنے اور معاملہ فہمی ان کے والد گرامی جناب آصف علی زرداری سکھا رہے ہیں بھٹو خاندان اپنی عظمتوں کے ساتھ ہمیشہ روشن رہے گا وزیر اعظم بن کر بلاول بھٹو پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک خود مختار پاکستان بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
بی اگر زندہ ہوتیں تو آج پاکستان کیسا ہوتا؟
Jun 21, 2023