ہیلپ لائن 15 کے صدقے جاؤں

حنا شہزادی
hina251985@gmail.com
کسی بھی ملک میں پولیس لوگوں کی امن و امان کی ضامن ہوتی ہے تاہم ہمارے معاشرے میں حقیقت اس سے بہت دور ہیں پولیس اور عوام کے مابین تعلقات مضبوط کرنے اور معاشرے میں جرائم کی شرح کو کم کرنے کے لیے پولیس ڈیپارٹمنٹ نے ہیلپ لائن 15 کا انعقاد کیا  جس کو آپ اور ہم ضرورت پڑنے پر استعمال کر سکتے ہیں  تاکہ معاشرے میں امن و امان کی فضا قائم ہو سکے  پاکستان میں پولیس پر اکثر و بیشتر کرپشن درندگی نااہلی اور سیاست کرنے کے الزامات کی بھرمار ہوتی رہتی ہے اور وہی ہیلپ لائن 15 جو کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں پولیس سے مدد لینے کے لیے کارآمد ذریعہ سمجھا جاتا تھا وہ بھی صرف نام کی حد تک ہی رہ گیا ہے  پولیس آرڈر 2002 کے مطابق  پولیس شہریوں کی جان و مال کی حفاظت امن و امان کا تحفظ اور جرائم کی شرح کو ختم کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے وہیں پولیس کے نااہلی اور ناقص کارکردگی لوگوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے سروے مطابق پولیس جو عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے اور ہنگامی حالات میں مدد فراہم کرنے کے لیے قائم کردہ ہیلپ لائن 15 کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی  جہاں  پریشانی میں مبتلا افراد نے ہیلپ لائن15   پر رابطہ کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں پہلے پہل تو  رابطہ کرنا بہت ہی مشکل ہے اور اگر  خوش قسمتی سے رابطہ ہو بھی جائے تو شکایت درج ہونے کے بعد پولیس کی طرف سے امداد فراہم ہونے میں اتنی دیر ہوچکی ہوتی ہے کہ تب تک مجرم دو تین قتل کر کے آرام سے فرار ہو سکتا ہے سروے کے دوران ایک خاتون نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ روز مرہ کی طرح صبح سویرے اپنے آفس کے لئے اوبر ڈرائیور  پر سفر کر رہی تھی کہ سفر کے اختتام پر ڈرائیور نے خاتون کے ساتھ بدتمیزی کرنی شروع کر دی اس صورتحال میں مدد کے لئے 15 پر کال کی تاکہ وہ کسی طرح کی کشیدہ صورتحال سے محفوظ رہ سکے خاتون کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے میری کال تو ریسیو ہوگئی اور  میری رپورٹ درج کر دی لیکن اس پر عمل درآمد ہونا کا دور دور کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا انتظار تبدیل ہوا تو میں نے  جیسے تیسے کر کے وہ معاملہ حل کیا اور آفس چلی گئی مجھے غصہ بھی کافی تھا کہ اس وقت میں میرے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا تھا اور اوبر ڈرائیور بھی میری طرف طنزیہ  نظروں سے دیکھتا چلا گیا یہ واقعہ کوئی صبح 8:45 پہ پیش آیا  اور اور پولیس کی طرف سے  مجھے سے رابطہ11:05کے قریب کیا گیا کہ جی میڈم آپ کی شکایت ہمیں موصول ہوئی تھی تو بتائیے کیا مسئلہ در پیش ہے  تو میں نے کہا کہ میں نے صبح 8 بج کر 45 منٹ پر کی تھی اور آپ مجھ سے اب پوچھ رہے ہیں تو متعلقہ افراد کا کہنا تھا کہ  مجھے تو ابھی آپ کی شکایت موصول ہوء ہے تو میں آپ کو کال کر رہا ہوں یہاں پر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان ڈھائی تین گھنٹوں میں میرے ساتھ کیا کچھ ہو سکتا تھا  اور ان سب کا ذمہ دار کون ہے  کیا اس سب کی ذمہ دار ہیلپ لائن 15 کی ناقص کارکردگی ہے یا اس سب کا پر سیجر اتنا طویل  ہے کہ کمپلیٹ کرنے میں انہیں دو ڈھائی گھنٹے لگ گئے اور ان سب کا ذمہ دار کون ہے  کیا یہ ہیلپ لائن15 واقعی عوام کے کام آتی ہے یا عوام کو بھلانے کا ایک ذریعہ ہے یا یہ کہیں عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے کسی جگہ پر کرامت بھی ثابت ہو سکتی ہے ہے میری حکومت اور پولیس انتظامیہ سے اپیل ہے کہ خدا را  ہیلپ لائن 15کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے لیے وسائل  کو اس طرح استعمال کریں تاکہ عوام کو بغیر کسی جھجک کے بغیر کسی پریشانی کے آپ سے رابطہ کرسکے اور آپ بھی اس کے اوپر فوری عمل درآمد کر سکے اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں موثر کردار ادا کرسکے اور اس کے ساتھ  حکومت اور پولیس محکمہ عوام کی طرف سے موصول ہونے والے کال اور پولیس کی کارکردگی کا بھی مکمل احتساب کرے کہ کیا یہ عوام کی غلطی ہے کہ وہ بلین کالز کرکے پولیس محکمہ کی قاہم کردہ ہلپ لائن 15 کو اس حد تک مصروف کر دیتے ہیں کہ پولیس اپنا کام موثر طریقے سے سرانجام نہیں دے سکتی یا پولیس کی پارلیمنٹ کے  وہ افراد جو کہ 15 کی سروسز کو ہینڈل کرتے ہیں ان کی نااہلی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی کرامدہے شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت 15 کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے تاکہ معاشرے میں جرائم کی شرح کم کی جاسکے اور سوسائٹی کے اندر امن و امان کا ماحول پیدا ہوسکے اور عوام بھی اس معاملے میں پولیس کا بھرپور ساتھ دے سکے.

ای پیپر دی نیشن