چین اور امریکا دنیا میں صرف دو بڑے اور طاقتور ملکوں کی حیثیت سے ہی نہیں جانے جاتے بلکہ دونوں کے ساتھ ممالک کے ایسے گروہ ہیں جو ان کے حلقہ ٔ اثر میں ہیں اور کوئی بھی اہم فیصلہ کرتے ہوئے انھیں اعتماد میں لینا نہیں بھولتے۔ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور رہا تو ہے لیکن اب عالمی منظر نامہ تیزی سے بدل رہا ہے اور یہی بات امریکا کے لیے مسلسل تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر چین کئی معاملات میں موثر کردار ادا کر کے یہ ثابت کرچکا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس کا اثر و رسوخ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور وہ وقت جلد آنے والا ہے جب دنیا یک قطبی نہیں رہے گی جس کا صاف سیدھا مطلب یہ ہے کہ امریکا کی موجودہ عالمی حیثیت برقرار نہیں رہ سکے گی۔ یہ پیراڈائم شفٹ بین الاقوامی امور پر کس طرح اثر انداز ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم اب امریکا نے خود بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا شروع کردیا ہے، شاید اسی لیے وہ چاہتا ہے کہ چین کے ساتھ کشیدگی ختم کر کے تعلقات کی بحالی کی طرف قدم بڑھایا جائے۔
اسی سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی ہے جس کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تنائو کے خاتمے کے لیے تعلقات کی بحالی اور استحکام پر اتفاق کیا گیا۔ یہ چینی صدر سے کسی بھی امریکی اعلیٰ عہدیدار سے 2018ء کے بعد پہلی براہ راست ملاقات ہے۔ ملاقات کے دوران چین اور امریکا نے اس بات پر زور دیا کہ تنازعات میں پڑنے کے بجائے دونوں ممالک تعلقات میں استحکام لانے کے لیے مل کر کام کریں۔اس موقع پر چینی صدر شی نے کہا کہ کچھ معاملات میں پیشرفت ہوئی ہے اور کچھ پر معاہدے تک بھی پہنچ گئے ہیں۔ یہ بہت اچھا ہے۔جواب میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے اپنی اپنی ذمہ داریوں کا اداراک رکھتے ہیں۔ امریکا بھی ایسا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔امریکی وزیر خارجہ کے دورہ چین کے دوران کوئی بڑی پیشرفت تو نہیں ہوئی لیکن توقع ہے کہ آنے والے ہفتوں میں مزید سینئر امریکی حکام چین کا دورہ کریں گے۔
ادھر، پاکستان کے چینی دارالحکومت بیجنگ میں تعینات سفیر معین الحق نے کہا ہے کہ ایم ایل ون منصوبے کو رواں سال شروع کرنے کے لیے دونوں ممالک کے متعلقہ ادارے تمام انتظامات کو حتمی شکل دینے کی بھرپور کوششیں کررہے ہیں۔ دونوں اطراف کی قیادت کا اتفاق رائے ہے، خاص کر نومبر 2022ء میں وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے دورۂ چین کے دوران دونوں ممالک کی قیادت نے ایم ایل ون منصوبے پر جلد از جلد عمل درآمد کے عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔ ’نوائے وقت‘ اور ’دی نیشن‘ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں معین الحق کا مزید کہنا تھا کہ جے سی سی میٹنگ میں توانائی، ٹرانسپورٹ، انفراسٹرکچر، صنعت، زراعت اور آئی ٹی کے شعبوں میں بہت سے اہم منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا جائی گا اور حتمی شکل دی جائے گی۔ فریقین اس سال بارھویں سیشن کے انعقاد کے انتظامات کر رہے ہیں۔ رواں سال سی پیک کی ایک دہائی مکمل ہورہی ہے۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ چین میں ’با ٹائی‘ (آئرن برادر) کا لفظ صرف پاکستان کے لیے مخصوص ہے۔ جیسا کہ ہم پاکستان میں اسے پہاڑوں سے بلند، سمندروں سے گہرا، شہد سے میٹھا سمجھتے ہیں۔ درحقیقت پاکستان کو چین کے ساتھ اپنی خصوصی دوستی پر فخر ہے جو ہر آزمائش میں پوری اتری اور لازوال ہے۔ یہ تعلق بین الریاستی تعلقات کے معمول کے اصولوں سے بالاتر ہے اور اپنی نوعیت کی انفرادیت کا حامل ہے۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات مضبوط سیاسی حمایت، تزویراتی اعتماد اور عملی تعاون پر مبنی ہیں۔ چین نے حال ہی میں کووڈ سے متعلق سفری پابندیوں کو ختم کیا ہے اور بین الاقوامی سفر کو کھول دیا ہے۔ اس کے قدرتی طور پر تجارت اور سیاحت سمیت چینی معیشت کے مختلف شعبوں پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ چین دوبارہ کھلنے کے نتیجے میں ہمارے دونوں ممالک کے درمیان باہمی روابط میں اضافہ ہوا ہے۔
معین الحق کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تجارتی اور سرمایہ کاری تعاون بھی ہے جو پاکستان کی معیشت کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہمارے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار کے طور پر، چین پاکستانی مصنوعات کی ایک بڑی برآمدی منڈی ہے، اور ہم چینی منڈیوں کے غیر استعمال شدہ شعبوں تک پاکستانی مصنوعات کی رسائی کو مزید بڑھانے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ چین اور پاکستان نے 2023ء کو چین پاکستان سیاحت کے تبادلے کے سال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ اس سال دونوں ممالک اپنی دوستی کا جشن منانے، ایک دوسرے کی سیاحت کی صلاحیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور ایک دوسرے کے ممالک سے آنے والے سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے متعدد سرگرمیاں کریں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم نے صوبہ سیچوان میں چین کے مشہور سیاحتی شہر ڈوجینا گوان (Dujinaguan) میں بھی ’ہفتہ پاکستان‘ منایا اور روابط و عملی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے مری کے ساتھ ایک ’سسٹر سٹی‘ کے معاہدے پر بھی دستخط کیے۔
پاکستان اور چین کے تعلقات واقعی مثالی نوعیت کے ہیں اور دونوں ممالک مختلف مواقع پر یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ مشکل حالات میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ امریکا کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اب جبکہ چین اور امریکا کے درمیان کشیدگی اور تنائو میں کمی آرہی ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات بحال ہورہے ہیں تو پاکستان کو اس سلسلے میں دونوں ملکوں سے بات کرنی چاہیے کہ وہ خطے کی سلامتی اور استحکام کی راہ میں رکاوٹ بننے والے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے مل کر کردار ادا کریں۔ اگر چین اور امریکا بین الاقوامی برادری میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے مسئلہ کشمیر ہی حل کرا دیں تو یہ صرف اس خطے ہی نہیں بلکہ ساری بین الاقوامی برادری کے لیے خوش آئند ہوگا کیونکہ یہ مسئلہ جوہری قوت کے حامل دو ہمسایوں کے مابین پون صدی سے کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔