’’جو کرن قتل ہوئی شعلہ خورشید بنی‘‘

پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک سیاست کو جو مختصر ترین وقت میسر آیا اور مارشل لائوں اور مسکین جمہوریت کے عقب میں طاقتور ہاتھوں نے اپنے اقتدار پر قبضہ مضبوط تر کیا۔ یہ مضبوطی صرف اقتدار پر نہیں بلکہ ملک کی اکانومی اور سیاسی عمل پر بھی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری کو پیدا ہوئے جبکہ اْن کی صاحبزادی اور پاکستانی عوام اور دنیا کی بے نظیر لیڈر 21 جون 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ 
بے نظیر بھٹو ہارورڈ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ تھیں۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی 1977 میں صدر بھی منتخب ہوئیں۔ دنیا کیلئے یہ بات حیرت کا باعث ہوگی کہ وہ تمام حالات میں بھی بہت سادہ زندگی گزارتی تھیں۔ اْن کی ذاتی زندگی بہت تکلیف دہ تھی مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ بھٹو شہید کی گرفتاری ، قید اور پھانسی (قتل) تک اْن کی نجی زندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ جیل میں 48 ٹمپریچر میں بھی بنا پنکھے کے رہیں۔ جلوسوں، جلسوں میں شدید گرمی، سردی میں ٹرک کی چھت پر قیادت کرتے ہوئے سفر کرتیں۔ اْنکے شوہر آصف زرداری کی قید کے دوران ہر طرح کی ذمہ داری کا بوجھ بھی آجاتا۔ کڑی دھوپ میں عدالتوں اور جیلوں کے چکر ، بچوں کی تعلیم و تربیت اْن کی شاپنگ، تفریح یہ ساری ذمہ داریاں ایسے نبھا رہی تھیں کہ جیسے اْنکے بہت سے وجود ہوں۔ ہر وجود دوسرے سے مکمل مختلف ہو۔ بے نظیر بہادر، جرأت مند لیڈر تھیں، دوسری جانب بہترین بیٹی اور ماں اور قابل فخر بیوی تھیں۔ انہوں نے پاکستانی عوام کے ساتھ وہ سارے رشتے نبھائے جو حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کی جانب جاتے تھے۔ مجھے آنسہ بے نظیر بھٹو کو قریب سے دیکھنے کا پہلی مرتبہ موقع غالباً1978 میں ملا جب وہ لاہور میں پارٹی کارکنوں اور عوام سے رابطے کیلئے آئیں۔ فاروق لغاری کی کوٹھی واقع FCC روڈ جو اب ظہور الٰہی روڈ کہلاتی ہے پر موجود پارٹی کارکنوں سے ایک کرسی پر کھڑے ہو کر مخاطب تھیں۔ ایک دبلی پتلی دھان پان جیسی کمزور مگر جرأت وبہادری کا پہاڑ تھیں۔ انہوں نے اس موقع پر کہا کہ ہمارا قافلہ حق کا قافلہ ہے۔ عوام کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ یہ قربانیاں دیتا اپنی منزل پر پہنچے گا۔ حق بات ہے کہ پہلے بھٹو خاندان نے قربانیاں دیں بعد میں کارکن نکلے۔ میرے کان میں اْن کے الفاظ آج بھی گونج رہے ہیں اس لیے کہ وہ لیڈر ہیں جو مشکل وقت میں گھروں میں چھپنے کی بجائے میدان میں کھڑے رہے۔ انہوں نے بھٹو کی یہ بات بھی دہرائی کہ اگر مجھے قتل کر دیا گیا تو ہر کارکن بھٹو بن جائے گا۔ میں وہاں چند گھنٹے گزار کر واپس آگیا۔ اْس وقت یہ علاقہ شہر سے بہت دور لگتا تھا۔وہاں پہنچنے کیلئے ایک جانب فیروز پور روڈ سے 5 نمبر ویگن اور مین مارکیٹ گلبرگ سے 27 نمبر ویگن چلتی تھی۔ میں بے نظیر بھٹو کی تصاویر اتارنے کیلئے اپنے ایک دوست سے 120 کا 12 نیگٹو والا کیمرہ لے کر گیا تھا مگر واپسی پر کسی بھی فوٹو شاپ والے نے اس سے تصاویر بنانے سے انکار کر دیا کہ کیوں ہمیں پکڑوانا ہے۔ 
1978 میں ذوالفقار علی بھٹو کوٹ لکھپت جیل میں تھے تو عید آگئی۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے خود ہی فیصلہ کر لیا کہ عید کی نماز جیل کے باہر ادا کریں گے۔ اْس وقت سینہ بہ سینہ خبر اس طرح پھیلتی تھی کہ آج کل اس طرح موبائل سے بھی آگے نہیں جاتی۔ اْس زمانے میں فیروز پور روڈ پر آبادی اور کاروباری مراکز نہ ہونے کے برابر تھے۔ کوٹ لکھپت منڈی پھاٹک کے آگے تو ریلوے لائن اور کھیتوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ اْس وقت بادامی باغ سے کاہنے کیلئے 5نمبر ویگن مزدوروں کو لے کر جاتی تھی۔ ہم کھیتوں میں سے میل ہا میل پیدل گزرتے جیل کے قریب پہنچ گئے۔ جیل کی چھت پر اینٹی ایئر کرافٹ گنیں نصب تھیں۔ فوجی اور پولیس کے سپاہی جگہ جگہ موجود تھے۔ اس وقت ایک پمفلٹ بھی تقسیم کیا گیا جس میں بھٹو کا ایک فقرہ نعرے کے طور پر درج تھا کہ ’’جب تک ایک چھت بھی ٹپکتی ہے بھٹو اور پیپلز پارٹی موجود رہے گی‘‘۔ یاد رہے بھٹو دور میں 80 لاکھ کے قریب افراد مشرق وسطیٰ اور مغربی ممالک میں روزگار کیلئے بھیجے گئے۔ یہ صرف بھٹو کی خارجہ پالیسی اور اْن کے تعلقات کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ جولائی 1987ء میں محترمہ بے نظیر کی منگنی حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف زرداری سے لندن میں صنم بھٹو کے گھر میں ہوئی۔ جبکہ شادی دسمبر 1987 میں کراچی میں منعقد ہوئی جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ میں بھی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رفیق احمد شیخ کے ہمراہ اس تقریب میں شریک ہوا۔ اس کے چند روز بعد صحافیوں نے آصف زرداری کو گھیر لیا۔ اور سوال کیا کہ بے نظیر بھٹو تو زیادہ تر جیلوں اور جلسوں میں ہوتی ہیں۔ آپ اْنکے ساتھ کیسے گزارہ کریں گے۔ تو آصف زرداری نے یاد گار جواب دیا کہ بے نظیر بھٹو اب کبھی جیل نہیں جائیں گی اور میں اْنکے آگے ڈھال بنوں گا۔ اور انہوں نے اپنے عمل سے اس بات کو ثابت کیا۔ آصف زرداری پر کیسے کیسے الزامات اور مقدمات نہ بنائے گئے مگر لغزش، بے وفائی اس بلوچ کے خون میں نہ تھی۔ بی بی کی محبت میں انہوں نے رانجھے کو بھی مات دے دی۔ 
بے نظیر بھٹو جب 10 برس کی تھیں تو انہیں مری کے سابقہ برطانوی بورڈنگ ہائوس میں داخل کروا دیا گیا۔ بے نظیر بتاتی ہیں کہ اْن کے والد چاہتے تھے کہ میں اور صنم سخت زندگی اور تجربے کے عادی ہو جائیں۔ زندگی میں پہلی مرتبہ اپنا بستر بچھانا، برآمدوں میں لگے نلکوں سے نہانے کیلئے بالٹیوں سے پانی بھرنا روز کا معمول تھا کیونکہ اْنکے والد نے انتظامیہ کو کہہ رکھا تھا کہ میرے بچوں سے بھی دوسروں کی طرح سلوک کرنا۔ بے نظیر بھٹو ایک جگہ لکھتی ہیں کہ تمام مسلمان ایک خدا کے آگے جھکتے ہیں اور ہمارے ملک میں غرباء دولت مندوں کے آگے سرنگوں ہوتے ہیں۔ سیدھے کھڑے ہو جائو، دوسروں کے سامنے ذلیل مت بنو۔ تم اور تمہارے حقوق اوروں کے برابر ہیں۔ 70 کلفٹن پیپلز پارٹی کا پہلا آفس بنایا گیا۔ صنم بھٹو گیارہ سال کی عمر میں اور بے نظیر بھٹو چودہ سال کی عمر میں پیپلز پارٹی کی بانی ممبران میں شامل ہوگئیں۔ وقت نے رفتار پکڑی اور بے نظیر بھٹو آکسفورڈ یونیوسٹی کی صدر بھی منتخب ہوگئیں۔ وطن واپس آئیں تو مری کے بورڈنگ ہائوس سے کہیں زیادہ مشکلات اْن کی منتظر تھیں۔ کچھ عرصے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اْلٹ دیا گیا۔ جنرل ضیاء کے دور آمریت میں بے نظیر بھٹو کی ملک واپسی کے چند ماہ بعد ہونیوالے بلدیاتی الیکشن میں پورے پنجاب میں جنرل ضیاء کے حامی ٹولے کا صفایا ہوگیا۔ لاہور میں عوام دوست 100 میں سے 85 سیٹیں جیت چکے تھے۔ آمریت کو اپنے قدموں کے نیچے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی، لاہور میں باوردی افسروں نے عوام دوست کونسلروں کو نااہل کرنا شروع کر دیا اور دھونس، دھاندلی سے شاید 24 ووٹوں سے میاں شجاع الرحمٰن کو میئر بنوا دیا گیا۔ یہ سلسلہ 1979 سے کل تک جاری تھا، پنجاب میں پیپلز پارٹی کو کبھی گنجائش نہ دی گئی مگر اس مرتبہ جس طرح پیپلز پارٹی نے کراچی میں اپنا جھنڈا لہرایا ہے۔ اسی طرح پنجاب بھی بھٹو کا بے نظیر بنے گا۔

ای پیپر دی نیشن