محترمہ بے نظیر بھٹو ایک عالمی مرتبہ کی سیاست دان اور انسانیت کے لئے درد مند دل رکھنے والی ماں کی بیٹی ہونے کی حیثیت سے اپنے والدین کے اوصاف کا بے نظیر امتزاج۔
بے۔ نظیر بھٹو 10 اپریل 1986ء کو اپنی جلا وطنی ترک کر کے لاہور آئیں تو عوام نے جس جوش و جذبہ سے ائیرپورٹ پر ان کی پذیرائی کی ، وہ عوام کی جانب سے عوامی حکومت کے وزیراعظم جناب بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کے لئے بالواسطہ طور پر محبت کا اظہار تھا اور پاکستان کے عوام جو خلا محسوس کررہے تھے انہوں نے بے نظیر کی راہ میں آنکھیں بچھا کر کم و بیش دو دن تک اس کا اظہار و اعتراف کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو لاہور آمد کے موقع پر جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے، اس میں جناب بھٹو اور بیگم صاحبہ کے ساتھ ان کی سیاسی وابستگی بھی شامل ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی ذہانت اور شخصیت کا گہراثر بھی چھوڑا ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو کی اس ذہانت کا اعتراف مخالف حلقوں میں بھی کیا گیا بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بیگم بھٹو کی علالت کی وجہ سے جو سیاسی خلا پیدا ہوا تھا، بے نظیر بھٹو اس خلا کو پر کرنے میں کامیاب ہوئیں جس پر ان کے والدین کو بجا طور پر فخر ہو گا۔
بے نظیر بھٹو کا نام پہلی مرتبہ اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ میں آیا تھا جب آکسفورڈ یونیورسٹی سے وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کو ڈاکٹر آف لاء کی ڈگری دینے کا اعلان کیا گیا تو اس کی مخالفت ایک غیر ملکی پروفیسر اور پاکستان دشمن لابی نے کی تھی اس موقع پر بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بے نظیربھٹو نے کہا کہ ان کے والد کو آکسفورڈ سے کسی اعزاز کی ضرورت نہیں ہے۔ بی بی سی کے ایک معروف مبصر نے پاکستانی سفارت خانے کے ایک استقبالیہ میں میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو کی ذہانت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم بھٹو کی طرح تیزوطرارہیں اور مجلسی آداب میں اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کا پرتو ہیں، جب وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی صدر منتخب ہوئی تھیں تو پھر برطانوی عالمی پریس میں ان کا شہرہ ہوا اور جناب بھٹو کی صاحبزادی بیرون ملک پاکستان کے وقار کو سربلند کرکے اپنے عظیم باپ کی ان کوششوں میں معاون ثابت ہوئیں جو انہوں نے پاکستان کی عظمت کو دنیا میں بلند تر کرنے کے لئے شب و روز کی محنت سے کیں۔ بے نظیر بھٹو کو سیاسی سوجھ بوجھ وراثت میں ملی تھی۔ ان کی اپنی ذہانت کا اندازہ اس انٹرویو سے کیا جاسکتا ہے جو ان کے لاہور میں قیام کے دوران جولائی 1977ء میں لیا گیا۔ اسے مستقبل کی وزیراعظم کا انٹرویو بھی کہا جاسکتا ہے۔ آپ اپنے والد کی بہت بڑی مداح تھیں۔ جب انہوں نے یہ سنا کہ عوامی حکومت کی جگہ فوج نے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا ہے تو اس وقت ان کا فوری ردعمل کیا تھا؟
وہ میں ان سطور میں درج کر رہا ہوں۔"میرے والدین کو اس کی اطلاع تو صبح دو بجے ہی مل گئی تھی ، لیکن مجھے اس کا پتہ صبح تین بجے کے قریب چلا اس دوران ممتاز بھٹو اور عبدالحفیظ پیرزاد کے ٹیلی فون بھی آئے اور ہمیں تین بجے جگایا گیا۔ اس تبدیلی پر میرا فوری تاثر افسوس پر مبنی تھا۔ لیکن یہ افسوس ذاتی نہیں بلکہ یہ سوچ کر کہ کس طرح پیپلزپارٹی نے پچھلے پانچ سالوں میں نامساعد حالات کے باوجود ملک کی خدمت کی اس وقت جبکہ پاکستان دو نیم ہوچکا تھا اور دشمن یہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان قائم نہیں رہے گا، لیکن پاکستان نہ صرف قائم رہا بلکہ زیادہ مضبوط ملک کے طور پر ابھرا، عوامی حکومت کے وہ کارنامے میری آنکھوں کے سامنے متحرک تصویر کی طرح گھومنے لگے کہ کس طرح بھارت سے نہ صرف پانچ ہزار مربع میل کا مقبوضہ علاقہ واگزر کرایا گیا بلکہ نوے ہزار جنگی قیدی بھی غیر مشروط طور پر رہا کرائے گئے اس کے بعد دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد اور نیا اقتصادی اور معاشرتی ڈھانچہ متفقہ اسلامی آئین کی تشکیل کئی اہم اور دور رس فیصلے یہ سب عوامی حکومت کے ہی کارنامے تھے۔ عوامی حکومت نے رشوت اور بے ایمانی کا بھی قلع قمع کرنے کا عزم کررکھا تھا گزشتہ پانچ سالوں کے دوران سنگین بحرانوں کی وجہ سے ہم ان برائیوں کا پوری طرح قلع قمع تو نہ کرسکے اور پانچ سال کے مختصر عرصے میں درپیش سنگین بحرانوں کی وجہ سے تمام اصلاحات کو مستحکم بنانا کس طرح ممکن تھا مجھے اس بات کا بھی افسوس تھا کہ خدا کی طرف سے عطا کردہ موقع ضائع ہوگیا۔ یہ افسوس اس وجہ سے بھی تھا کہ اس وقت تک فوجی حکام کی طرف سے ملک میں عام انتخابات کرانے کا بھی اعلان نہیں ہوا"۔