آج پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اتحادی حکومت کا بڑا حصے دار ہونے کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف کو سندھ کی دھرتی پر کھڑے ہو کر وارننگ دی اور بجٹ منظور کرا کے دکھانے کا چیلنج دیا تو میاں نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت کے بندھن میں بندھنے اور انہیں بھائی کا درجہ دینے والی ان کی والدہ اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو مجھے بہت شدت سے یاد آئیں جن کی آج 70 ویں سالگرہ ہے۔ شہید محترمہ نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی ایک جرنیلی آمر کے ہاتھوں پھانسی کی سزا پر بے کسی اور بے بسی کے عالم میں عملدرآمد ہوتا دیکھ کر اور پھر خود بھی جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں اذیت ناک انداز میں برداشت کرنے کے بعد کارزار سیاست میں قدم رکھا تو سہولتوں والی سیاست نے ان کا ہرگز استقبال نہیں کیا تھا بلکہ انہیں اپنے اقتدار کے دوران بھی بے بسی کے ساتھ اپنے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے سانحہ قتل کا صدمہ اٹھانا پڑا اور وہ اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کو پل پل اپنی آنکھوں کے سامنے زندہ درگور ہوتے دیکھتی رہیں جو اپنے شوہر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور اپنے نوعمر بیٹے شاہنواز بھٹو کی فرانس میں پراسرار ہلاکت کے سانحات برداشت کرتے کرتے عملاً بے سدھ ہو چکی تھیں اس لئے انہیں مرتضیٰ بھٹو کے بہیمانہ قتل سے بے خبر رکھنے کی کوشش کی گئی مگر انکے دل میں گھر کرنیوالے خوف نے ہی انہیں اپنے لخت جگر کے قتل کی خبر دے دی اور وہ دبئی میں پل پل مرنے والی اذیت ناک زندگی سے بالآخر پتھرائی آنکھوں کے ساتھ وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے ہی آزاد ہو گئیں اور اپنی زندگی کی آخری ہچکی لے کر اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔ بے نظیر بھٹو نے یہ سارے مناظر اپنی آنکھوں میں بسائے اور سیاست کی کٹھنائیوں سے گزرتے ہوئے آبلہ پائی کے ساتھ دوبار اقتدار کی راہداریوں تک آئیں جنہیں اپنے اقتدار میں بھی پی ٹی آئی قائد جیسی سہولت والی سیاست و حکومت کے بجائے عملاً کانٹوں کی سیج والی سیاست کو نبھانا پڑا اور 18 اکتوبر 2007ء کو مشرف آمریت کے دوران اپنی زندگی کو لاحق کسی بھی خطرے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ دوبارہ جلاوطنی کی زندگی ترک کرکے بحالی ٔ جمہوریت کیلئے اپنا کردار ادا کرنے ملک واپس آگئیں اور اپنی زندگی کیلئے موصول ہونیوالے ممکنہ سنگین نتائج کے پیغامات کے باوجود اپنی پارٹی کے پبلک جلسوں میں شریک ہوتی اور جلوسوں کی قیادت کرتی رہیں اور بھٹو خاندان کی جانی قربانیوں کی تاریخ میں خود بھی لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ کر اپنا نام سنہری حروف میں درج کرا گئیں جبکہ اپنی پارٹی کے اقتدار کی تیسری منزل کی راہ بھی وہ اس قربانی کے عوض ہموار کرگئیں۔ جناب! یہ ہے ملک و قوم کیلئے قربانیوں والی سیاست کی زندہ مثال۔ اور آج کے دودھ پینے والے مجنوں اپنے تئیں انقلابی لیڈر ہونے کے زعم میں مبتلا ہیں مگر سہولت والی حکومت کے بعد اب اپنی اپوزیشن کی سیاست بھی سہولت والی چاہتے ہیں۔ اداروں سے تحفظ اور سسٹم کے ساتھ کھلواڑ کیلئے مکمل آزادی کے متقاضی ہوتے ہیں اور جب انہیں پہلے جیسی سہولت کیلئے گرین سگنل نظر نہیں آتا تو وہ 9 مئی والے سانحہ کی نوبت لے آتے ہیں اور پھر خود کو بچانے کے لئے اس سانحے کا سارا ملبہ اپنے کارکنوں پر ڈال دیتے ہیں۔ انہیں ضمانتوں کی دستیاب سہولت کے ساتھ زمان پارک میں بیٹھ کر کم از کم محترمہ بے نظیر بھٹو کی کتاب ’’دختر مشرق‘‘ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس سے وہ اپنی ’’انقلابی‘‘ سیاست کیلئے کچھ سبق حاصل کرلیں تو اور بھی اچھا ہوگا۔
آج محترمہ بے نظیر بھٹو کی 70 ویں سالگرہ ہے تو ان سے وابستہ یادیں انکی کٹھنائیوں سے معمور متحرک زندگی کی پرتیں کھول کر میرے سامنے لا رہی ہیں۔ میں نے 1974ء میں پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں داخلہ لیا تو اس وقت پنجاب یونیورسٹی بھٹو مخالف سرگرمیوں کا گڑھ تھی اور طلبہ کی سیاست میں اسلامی جمعیت طلبہ کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ جاوید ہاشمی اس وقت پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے اور غضب کے صدر تھے جن سے ملاقات کی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی خواہش رکھتے تھے۔ میں نے خود بھی اسلامی جمعیت طلبہ کا دم بھرنا شروع کر دیا اور پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے اگلے انتخاب میں صدر کیلئے فرید پراچہ کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اسی دور میں بھٹو کی نوعمر صاحبزادی پنکی بے نظیر بھٹو نے پی ٹی وی پر نوجوانوں کیلئے انگریزی میں ایک کوئز پروگرام کا آغاز کیا جو میں شوق سے دیکھا کرتا تھا۔ 1975ء میں میں نے اپنا پرچہ ’’سٹوڈنٹ‘‘ نکالا تو دوستوں سے مشورہ کیا کہ کیوں نہ پنکی بے نظیر کا ’’سٹوڈنٹ‘‘ کیلئے انٹرویو کیا جائے مگر دوستوں نے میری اس تجویز کی مخالفت ہی نہیں‘ مزاحمت بھی کی۔ ان کا استدلال یہی تھا کہ پنجاب یونیورسٹی اور دوسرے تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کا جتنا اثرورسوخ ہے اور اس نے جس طرح بھٹو مخالف فضا گرما رکھی ہے، اس فضامیں کیا ہم اپنے پرچے میں پنکی بے نظیر کا انٹرویو کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں چنانچہ اس استدلال کے آگے میری خواہش ڈھیر ہو گئی جبکہ ’’سٹوڈنٹ‘‘ کیلئے ہم نے کئی معرکہ آراء انٹرویو کئے۔ ان میں بائیں بازو کے سٹوڈنٹ لیڈر سلیمان کھوکھر کا انٹرویو یادگار رہا جو یونیورسٹی لاء کالج میں میرے کلاس فیلو بھی تھے۔ اسی طرح ایک معروف طوائف مس شہزادی کے ’’سٹوڈنٹ‘‘ میں شائع ہونیوالے انٹرویو کی بھی خوب دھوم مچی مگر پنکی بے نظیر کا انٹرویو کرنے کی ہمیں جرأت نہ ہو سکی۔
جولائی 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی حکومت مخالف تحریک کے نتیجہ میں بھٹو حکومت کا خاتمہ ہوا تو ساتھ ہی پیپلزپارٹی کی قیادتوں اور کارکنوں پر ریاستی سختیوں کا آغاز ہو گیا۔ میں اس وقت عملی صحافت میں قدم جما چکا تھا اور تحریک استقلال کے ترجمان اخبار ’’آزاد‘‘ کے ساتھ بطور ہائیکورٹ رپورٹر وابستہ ہو چکا تھا۔ بھٹو کیخلاف نواب محمد احمد خان کے قتل کا مقدمہ چلانے کیلئے لاہور ہائیکورٹ کو ٹرائل کورٹ کا درجہ دے دیا گیا۔ روزانہ کی بنیاد پر ہونیوالی اس مقدمے کی سماعت کے دوران ذوالفقار بھٹو کو کوٹ لکھپت جیل سے عدالت لایا جاتا اور بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ پنکی بے نظیر بھٹو بھی اپنے والد کی جھلک دیکھنے کی خاطر کمرۂ عدالت میں موجود رہتیں جبکہ وقفے کے دوران دونوں ماں بیٹی لاہور ہائیکورٹ بار کے لیڈیز روم میں آجاتیں جہاں ہم اخبار نویسوں کو بھی ان سے گپ شپ کا موقع مل جاتا۔ (جاری)
ایک دن ایک عدالتی اہلکار نے بے نظیر بھٹو کو کمرۂ عدالت میں داخل ہونے سے عملاً گالم گلوچ کرتے ہوئے روک دیا تو وہ اس اہلکار سے تلخ کلامی کے بجائے ہائیکورٹ بار کے لیڈیز روم میں آگئیں جہاں پہلی بار مارشل لاء حکومت کیخلاف مفصل انداز میں انکے خیالات سننے کا موقع ملا اور انکی سیاسی پختگی اور قائدانہ صلاحیتوں کا اندازہ ہوا۔ بھٹو مرحوم کی پھانسی سے کچھ عرصہ قبل اور پھانسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو جن اذیت ناک مراحل سے گزرنا پڑا وہ ہماری تاریخ کا المناک حصہ ہیں۔ انہی اذیت ناک مراحل میں جب مرتضیٰ بھٹو نے ’’الذوالفقار‘‘ تنظیم بنا کر مارشل لاء حکومت کیخلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا جو ایک طیارے کے اغواء پر منتج ہوئی تو بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی جو انکی آبلہ پائی والی سیاست ہی کا حصہ ہے۔ جبکہ اس جلاوطنی میں بھی وہ شریک چیئرپرسن کی حیثیت سے پیپلزپارٹی کی قیادت کرتی رہیں اور ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران پارٹی عہدیداروں کو گائیڈ لائن بھی دیتی رہیں۔ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کے نتیجہ میں جونیجو حکومت قائم ہوئی تو بے نظیر بھٹو نے جلاوطنی ترک کرکے ملک واپس آنے کا فیصلہ کیا اور 10 اپریل 1986ء کو الصبح انہوں نے لاہور ایئرپورٹ پر اتر کر عملی عوامی جدوجہد کا آغاز کیا۔ میں نے نوائے وقت کے بیٹ رپورٹر کی حیثیت سے بے نظیر بھٹو کے اس یادگار استقبال‘ جلوس اور مینار پاکستان پر انکے پبلک جلسے کی کوریج کی اور آج بھی یہ گواہی دینے کو تیار ہوں کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی سیاسی لیڈر کا نہ اتنا پرجوش استقبال ہوا اور نہ کسی لیڈر کے جلوس اور جلسے کا ایسا رنگ بنا جو بے نظیر بھٹو نے اپنی عملی سیاست میں پہلی انٹری پر ہی کر کے دکھا دیا تھا۔ پھر میں پنجاب بھر میں منعقد ہونیوالے بے نظیر بھٹو کے جلوسوں اور جلسوں کی کوریج کیلئے انکے ساتھ ہی رہا۔ ان کا یہ احتجاجی پروگرام تقریباً دوماہ تک تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ غالباً جولائی میں جہانگیر بدر میرے پاس بے نظیر بھٹو کا پیغام لے کر آئے کہ وہ لاہور پریس کلب میں آپ کے ساتھ تجزیہ پروگرام میں شریک ہونا چاہتی ہیں۔ میں 1986ء میں دوسری بار لاہور پریس کلب کا سیکرٹری منتخب ہوا تھا اور میرے شروع کردہ تجزیہ پروگرام میں شرکت ہر سیاست دان کی خواہش ہوتی تھی مگر بے نظیر بھٹو کی جانب سے جس وقت اس خواہش کا اظہار کیا گیا اس وقت لاہور پریس کلب کے دونوں دھڑوں میں مفاہمت اور ایک دوسرے میں ضم ہونے کی وجہ سے پریس کلب کی باڈی ختم ہو چکی تھی اور ایک دو رکنی کمیٹی متحدہ پریس کلب کے احیاء کے انتظامات میں مصروف تھی چنانچہ میں نے اسی بنیاد پر بے نظیر بھٹو کو تجزیہ پروگرام کیلئے دعوت دینے سے معذرت کرلی کہ اس وقت کلب کا عملی طور پر کوئی وجود ہی نہیں۔ بے نظیر بھٹو نے میری اس معذرت پر افسوس کا اظہار کیا تو ہمارے دوست سید ممتاز احمد نے کمال مہارت سے ایک متبادل راستہ نکال لیا۔ انہوں نے اسی روز ’’لاہور میڈیا فورم‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور اسکے پلیٹ فارم پر ایک فائیو سٹار ہوٹل میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو مدعو کرلیا۔ اس پروگرام کی بھی ایک طویل داستان ہے جس پر کئی جبینیں شکن آلود ہوسکتی ہیں۔
محترمہ اپنے دوسرے دور حکومت میں حامد میر کی کتاب کی رونمائی کی تقریب میں شریک ہوئیں اور تقریر کے دوران یہ فقرہ اچھالا کہ ’’یہ دو ٹکے کے صحافی میری حکومت گرانا چاہتے ہیں‘‘۔تو میں نے کھڑے ہو کر انکی اس بات پر سخت احتجاج کیا اور کہا کہ جو دو ٹکے کے صحافی انکی حکومت گرانا چاہتے ہیں وہ انکے نام بتائیں ورنہ اپنی اس بات پر معذرت کریں۔ میرے اس احتجاج پر تمام صحافی تقریب کا بائیکاٹ کرکے ہال سے باہر آگئے چنانچہ بے نظیر بھٹو کو اپنے ان الفاظ پر معذرت کرنا پڑی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میری یادیں انکے بطور وزیراعظم برونائی اور انڈونیشیا کے دورے کے حوالے سے بھی وابستہ ہیں جو میرے سفرنامہ ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ وہ بے شک عملی جدوجہد والی قومی لیڈر تھیں جن کے اوصاف کا ایک زمانہ قائل ہے۔ وہ آج زندہ ہوتیں تو اپنے بلاول کو سیاست کے آسمان پر چمکتے ستارے کے طور پر دیکھ کر کتنی خوش ہوتیں جن کی محترمہ کے ہاتھوں سیاسی پرورش کے مناظر میں نے 2005ء میں اس وقت دیکھے جب محترمہ نے اپنی اور آصف علی زرداری کی جلاوطنی کے دوران زرداری صاحب کو امام ضامن باندھ کر دبئی سے پاکستان واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا اور میرے سمیت کچھ اخبار نویسوں کو دبئی مدعو کیا تاکہ ہم زرداری صاحب کے دبئی سے لاہور تک شریک سفر ہو سکیں۔ بلاول کی عمر اس وقت 13، 14 برس کی ہوگی۔ آصف زرداری کی لاہور روانگی کے وقت بھی بے نظیر بھٹو بلاول کو اقتدار کی راہداریوں کے نشیب و فراز پر لیکچر دیتی رہیں۔ آج بلاول اپنے حکومتی اتحادی وزیراعظم کو آنکھیں دکھاتے ہوئے ان سے ان سے اپنے سیاسی راستے الگ کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں تو یقینناً یہ پیپلز پارٹی کو اکتوبر کے انتخابات میں اپنے الگ پارٹی تشخص کے ساتھ اتارنے کی تیاری ہے۔ ان کی یہ حکمت عملی ان کی والدہ کی شہادت کے دن تک کی سیاست سے کوئی مطابقت رکھتی ہے یا نہیں، اس کا آصف زرداری صاحب سے بہتر کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ بے شک سیاست کے دل میں کسی کے لئے کوئی درد نہیں ہوتا۔