شہباز حکومت کا خالص اشرافیہ بجٹ

Jun 21, 2023

عبداللہ طارق سہیل

پیپلز پارٹی نے سینٹ میں پاس اور پیش کردہ اپنا ہی بل مسترد کر کے قابلِ رشک تاریخ رقم کر دی۔ موجودہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور سابق چیئرمین سینٹ رضا ربّانی اور پیپلز پارٹی کے تمام سینٹروں نے یہ بل پیش کیا تھا اور پاس کیا تھا جس کے تحت ہر سابق چیئرمین کو بے مثال مالی تحائف ملنے تھے۔ آٹھ دس سرکاری ملازم سرکاری خرچے پر تاحیات چاکری کریں گے، جب چاہیں، مکان کی مرمت کیلئے بھاری رقم لے سکیں گے۔ بجلی، پانی حسب سابق سرکار ہی دے گی، اپنے خرچے پر علاوہ ازیں جب بچے ضد کریں گے کہ پاپا پاپا سیر کرنی ہے تو حکومت پابند ہو گی کہ سابق چیئرمین کے بچوں کے لیے فوری ہوائی جہاز کا بندوبست کرے۔ 
غنیمت ہے کہ جہاز مستقل ہی نہیں مانگ لیا۔ سنجرانی صاحب اشرافیہ کے آدمی ہیں لیکن رضا ربّانی کے بارے میں غلط فہمی تھی کہ وہ ’’اغراب‘‘ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ شکر الحمدللہ یہ ازحد غلط قسم کی غلط فہمی بھی دور ہوئی۔ مسلم لیگ نون  والوں نے بھی بل کی منظوری دے دی۔ مسلم لیگ کے زیادہ تر لوگ سکول کے زمانے میں بیک بنچرز ہوا کرتے تھے، وہ عادت اب بھی نہیں گئی۔ اگلوں نے بس یس سر کہہ دیا، بیک بنچرز نے ان سے بھی اونچی آواز میں یس سر کہہ دیا۔
میڈیا پر خوب طوئے ملامت (اصل محاورہ کچھ اور ہے) ہوئی تو اب پیپلز پارٹی نے اپنے ہی بل سے ویسے ہی لاتعلقی ظاہر کر دی جیسے وائرل ہونے والی وڈیو میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ایک تقریب کے دوران پارٹی کے نمایاں رہنما نبیل گبول سے ظاہر کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ اس لاتعلقی کے پیچھے کیا کہانی ہے، کوئی نہ کوئی کھوجی رپورٹر تلاش کر ہی لے گا، فی الحال یہ راز ہے، ویسا ہی راز کہ چیئرمین سینٹ کو مراعات والا بل کس کے ذہن زر طلب کی پیداوار تھی۔ 
___
پی ٹی آئی کے بڑے سِنگ ٹینک SING TANK بروزن تھنک ٹینک عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی نے ایک انٹرویو میں اس بات پر سخت شرمندگی اور ندامت ظاہر کی ہے کہ انہوں نے ایک ایسے ’’شخص‘‘ کے لیے نغمے گائے جو اب جا کے ایسا ویسا نکلا۔ وہی جب آئے گا کپتان میری جان وغیرہ جیسے گیت۔ 
نو مئی کے یوم سیاہ کے بعد یوم شرمندگی کا جو سلسلہ چل نکلا ہے، عیسیٰ خیلوی اسی کی ایک تازہ کڑی ہیں۔ شرمندگی ظاہر کرنے میں معافی طلبی ازخود اور خودبخود شامل ہوتی ہے چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ یوم سیاہ کے بعد یوم معافی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ 
عیسیٰ خیلوی نے تو محض نغمے گائے، پارٹی کے دوسرے سنگ ٹینک عمران اسمعٰیل تو باقاعدہ دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ ان کی دھمکی کسی زمانے میں بہت زیادہ بجا کرتی تھی، یہ کہ روک سکو تو روک لو۔ یہ دھمکی ایک بہت مشہور راجستھانی بھجن کا ہو بہو چربہ تھا۔ تاریخ میں پہلی بار کسی بھجن کی دھن کو چنوتی کے لیے استعمال کیا گیا۔ جو دھن کی روح کے منافی تھی اس لیے کہ بھجن میں تعریف اور التجا کا الگ ہوتا ہے۔ 
بہرحال یہ چوری شدہ دھن رنگ لائی، تبدیلی نافذ ہوئی اور اچھے بھلے ملک کو کلدھرا (راجستھان) کے مشہور زمانہ کھنڈرات کا ریپلیکا REPLICA بنا کر نکل گئی۔ 
___
ایک بہت ہی سینئر عدالتی رپورٹر نے یہ خبر بریک کی ہے کہ چند دن پیشتر اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبدیلی خاں نے خوف کا بت اتنی برق رفتاری سے توڑا کہ اپنے ہی پیروکار فواد چودھری کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔ یاد ہوگا وہ وڈیو کتنی وائرل ہوئی تھی جس میں قبلہ فواد چودھری ’’سپیڈ کی لائٹ‘‘ سے خوف کا بت توڑ رہے تھے، اتنی رفتار سے کہ سانس پھول گیا، بے دم ہو کر گرے، پانی کا گلاس پلا کر بابو جی دھیرے چلنا کی دھن بجائی گئی تب کہیں جا کر معاملہ خیر اسلوبی سے اختتام پذیر ہوا۔ 
زیر نظر ریکارڈ توڑ واقعے کی وڈیو موجود نہیں ہے کیونکہ یہ ماجرا عدالت کے اندر ، خاص کمرے اور لائونج میں پیش آیا۔ تبدیلی خان رفع حاجت کے لیے چیف صاحب کے سیکرٹری صاحب کا باتھ روم استعمال کرنے گئے تھے۔ فارغ ہونے کے بعد اسی کمرے میں سیکرٹری صاحب کے سامنے کی سیٹ پر تشریف فرما ہو گئے۔ اسی دوران عدالتی کمشن کے دو افسر فائلیں لے کر آ گئے کہ ان پر چیف صاحب نے دستخط کرنے تھے۔ انہوں نے یہ بات سیکرٹری صاحب کے کان میں جا کر کی کہ معاملہ عدالتی تھا اور ایک غیر عدالتی سامنے بیٹھا تھا۔ تبدیلی خان نے سمجھا، یہ خفیہ والوں کے آدمی ہیں، مجھے پکڑنے آئے ہیں، بس آئو دیکھا نہ تائو، دوڑ لگا دی اور دوڑ لگانے کے پہلے ہی قدم سے ’’اسراع‘‘ یعنی Acceleration کا بٹن ایسے آن ہوا کہ تیر ہو گئے، سیدھا وکیلوں کے کمرے میں جا کر دم لیا۔ 
خبر بہت مزے کی ہے لیکن کچھ تفصیلات رہ گئیں۔ مثلاً خوف کا بت توڑنے کی اس برق رفتار مہم کے دوران بت شکن نے بالٹی سر پر پہن رکھی تھی یا نہیں۔ اسی روز کی پیشی کے موقع پر تو…بالٹی برسرِ سر موجود تھی۔ کاش! اس واقعے کی وڈیو بھی ہوتی تو خوف کا بت توڑنے کی تاریخ کا اہم سرمایہ بن جاتی۔ بہرحال فواد چودھری اب پہلے کی طرح اکڑ نہیں سکتے، ان سے بڑے بت شکن بھی موجود ہیں۔ 
___
وزیر خزانہ نے سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ کر کے مہنگائی میں 40 فیصد اضافہ کر دیا۔ یعنی 30 فیصد اضافہ عنایت فرماتے ہی دس فیصد سود سمیت واپس لے لیا۔ 
اسحاق ڈار ایسے نہیں تھے جیسے نواز شریف کی وزارت عظمیٰ میں تھے۔ تب وہ اشرافیہ کو نوازتے تھے تو ساتھ ہی ’’اغرابیہ‘‘ کی کچھ نہ کچھ اشک شوئی کر دیتے تھے۔ اب پتہ چلا کہ یہ صحبت کا اثر تھا۔ تب وہ نواز شریف کے مصاحب تھے جو عوام کو بھی مقام دیتے تھے۔ اب وہ شہباز شریف کے ساتھی ہیں اور شہباز شریف کے کسی رجسٹر، بہی کھاتے میں عوام کا کوئی کھاتہ نہیں ہے۔ وہ اشرافیہ کا چہرہ ہیں چنانچہ اس بار، ان کے ’’وڑن‘‘ کے مطابق جو بجٹ آیا ہے، وہ سو فیصد اشرافیہ کو نوازنے کے لیے آیا ہے۔ عوام کو حسب سابق بجٹ کے لیے اگلی منتخب حکومت کا انتظار کرنا ہو گا۔
لوگ زیادہ اداس تب ہوتے ہیں جب یہ اعلان ہوتا ہے کہ گھی اتنے روپے، آٹا اتنے روپے سستا کر دیا ہے حالانکہ کہیں بھی ذرا بھی سستا نہیں ہوا، مہنگا ہی کیا گیا ہے۔                 
  استحکام پارٹی نے انتخابی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ اسے یقین ہے کہ الیکشن اس سال ہوں گے۔ پارٹی لیڈروں سے راہ و رسم رکھنے والے ایک رپورٹر سے بات ہوئی۔ پتہ چلا کہ استحکام پارٹی کے خیال میں پنجاب کی زیادہ تر سیٹیں مسلم لیگ ن لے جائے گی۔ باقی ہمیں ملیں گی۔ پیپلز پارٹی اتنی ہی سیٹیں لے سکے گی جتنی اس نے پچھلے الیکشن میں لی تھیں۔ استحکام پارٹی نے یہ اندازے اپنے پاس موجود ’’الیکٹیبلز‘‘ کی تعداد اور بعض ریاستی انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر لگائے ہیں۔ واللہ اعلم۔

مزیدخبریں