بینظیر بزور قوت پاکستان پر قبضہ کرنیوالوں کیلئے چیلنج بنی رہی

 نذیر ڈھوکی 
 21 جون 1953 کی شام کچھ قریبی دوست کراچی کے مقامی ہسپتال پہنچے تاکہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو بیٹی کی ولادت پر مبارکباد دیں، اس روز قائد عوام بھٹو بہت خوش تھے، مبارکباد دینے والوں کو کہنے لگے میری بیٹی کی ولادت پر سورج بھی خوشی میں غروب ہونا بھول گیا ہے۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اپنی لاڈلی بیٹی کے ناز بھی اٹھائے اور ان کی بہترین تربیت بھی کی ۔
   یہ بات اب ہماری تا ریخ کا حصہ  ہے کہ شملہ مذاکرات تقریبا ناکام ہو گئے تھے ایسے حالات میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید اپنے والد وزیراعظم پاکستان قائد عوام ذوالفقار علی شہید اور بھارتی وزیراعظم آنجہانی اندارا گاندھی سے مخاطب ہوکر کہنے لگی وزیراعظم پاکستان جب شملہ روانہ ہوئے تو پاکستان کے عوام کی نظریں شملہ مذاکرات پر تھیں اسی طرح بھارت کے عوام کی نظریں شملہ مذاکرات  ہیں، جب دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان مذاکرات ہونے لگے تو عالمی سطح پر  دنیا بھر کی نظریں شملہ مذاکرات پر تھیں، کیا دنیا کو یہ پیغام جانے دیا جائے کہ دونوں ممالک کے بڑے لیڈروں کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے ؟ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی بات سن پاکستان اور بھارت کے وزیراعظم کے درمیان دوبارہ مذاکرات ہوئے اور دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ ہوا جو شملہ معاہدہ کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔
 مجھے کہنے دیجئے کہ ہمارے ملک  کے میڈیا ہاؤسز حقیقت کی سر کوبی کرنے اور جھوٹ کی آبیاری کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اپنی پیاری بیٹی بیٹی کی ولادت کی خوشی میں یہ کہا کہ میری بیٹی کی ولادت کی خوشی میں سورج بھی غروب ہونا بھول گیا ہے۔ روزنامہ نوائے وقت کے کالم نویس سید عباس اطہر کا ماننا ہے کہ بھٹو ایک آسمانی راز ہے اس حوالے سے ان کے پاس ٹھوس دلیل پونے تین سوسال قبل کے شاعر حضرت پیر وارث شاہ ؒ کی کلام ھیر وارث شاہ ہے۔ مگر میرے پاس 21 جون 1978 کو موت کی کال کوٹھڑی سے پھانسی کے منتظر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کا اپنی نازوں  پلی بیٹی کے نام ان کی سالگرہ کے موقع پر لکھا ہوا خط ہے ،وہ خط نصیحت بھی ہے وصیت بھی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ موت کی کال کوٹھڑی میں پھانسی کے منتظر باپ اپنی بہت پیاری بیٹی کو
عوام کی خدمت کرنے کی وصیت کر رہے جو خود بھی سفاک آمروں کی قیدی تھیں، میں سکھر کا رہنے والا ہوں جانتا ہوں کہ سکھر میں گرمی کی شدت کیا ہوتی ہے سورج کی تپش کیسی ہوتی ہے ایسے دنوں میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید سکھر جیل میں قید تھیں، جیل کی وہ بیرک میں نے دیکھی ہے جہاں گرمی کی موسم میں صبح سے لیکر سورج ڈوبنے تک کڑی دھوپ کا بسیرا ہوتا ہے۔ سابق وفاقی وزیر اور موجودہ ممبر قومی اسمبلی آفتاب شعبان میرانی بھی ان دنوں سکھر جیل میں قید تھے ،آفتاب شعبان میرانی شکار پور کے رہنے والے ہیں جو سکھر کے بہت قریب ہے، آفتاب شعبان میرانی کا کہنا ہے کہ ہم تمام سیاسی قیدیوں نے گرمی کی شدت کی وجہ سے جیل حکام سے کہا کہ ہم برف کا کین منگوانا چاہتے ہیں جس کی جیل حکام نے اجازت دے دی، برف کا کین ہم نے ساتھ والی بیرک  میںبھجوا دیا جہاں محترمہ بینظیر بھٹو شہید واحد قیدی تھیں، مگر تھوڑی دیر میں برف کا کین واپس آیا ساتھ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا خط تھا " آپ کی بڑی مہربانی کہ اپنی بہیں کو برف کا کین بھیجا مگر مجھ میں گرمی کی شدت برداشت کرنے کا حوصلہ ہے ، وہ غاصب یہ سوچیں گے کہ سورج کی تپش نے میرا حوصلہ توڑ دیا ہے اس لیئے میں برف کا کین بیرک میں نہیں رکھ سکتی آپ ساتھیوں کا بہت بہت شکریہ "۔
 اس زمانے میں پریس پر سینسر شپ تھا مگر کچھ میڈیا  گروپ ایک طرح سے آمروں کے سہولت کار بنے ہوئے تھے جنہوں نے آمروں کے ظلم پر رضاکارانہ خاموشی اختیار کی ہوئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اکیلے سر نا صرف سفاک آمروں کی مزاحمت کی بلکہ ان کی بہادری اور جمہوریت کے جدوجہدنے دنیا بھر میں جمہوری جد جہد اور آزادی کی تحریکوں کو حوصلہ بھی بخشا، امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن کی اہلیہ ہیلری کلنٹن کا کہنا تھا  1985 کے دوران محترمہ بینظیر بھٹو شہید ایک لیکچر دینے امریکہ تشریف لائیں تھیں جب مجھے معلوم ہوا تو کوشش کے باوجود مجھے شرکت کا کارڈ نہیں مل سکا تھا مگر میں نے اپنے شوہر اور بیٹی کے ساتھ کئی پہر سڑک پر کھڑے ہو کر انتظار کیا تھا تاکہ اس بہادر لڑکی کو دیکھ سکیں جو  انتہائی طاقتور اورسفاک آمروں کی مزاحمت کر رہی ہیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے نا صرف اپنے ملک پر قابض اقتدار کے لالچی ٹولے کی مزاحمت کی  بلکہ بندوق بردار شدت پسندوں کی بھی مزاحمت کی جو دہشت کے ذریعے پاکستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جی ہاں محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے جمہوری جدوجہد سے آمروں کو شکست دی اور 27 دسمبر 2007 کو ان شدت پسندوں کو چیلنج کیا جو بم اور بندوق کے ذریعے پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سوات پر پاکستان کا پرچم سر بلند کرنے کا وعدہ کیا تھا اور دنیا نے دیکھا کہ ان کے سیاسی جانشین صدر آصف علی زرداری نے سوات میں قومی پرچم طلوع کرکے ملک و قوم کا سر فخر سے بلند رکھا۔

ای پیپر دی نیشن