امیر محمد خان
سابق سفیر چوہدری محمد نواز اپنی وزارت خارجہ کی ملازمت میں جدہ سمیت کئی ممالک میں شاندار خدمات انجام دے چکے ہیں، انکی جدہ میں تعیناتی کے دوران اکثر و بیشتر ہم چند دوستوں کی رات گئے گپ شپ ہوا کرتی تھی ، چوہدری نواز کو پہلا سفارت کار پایا تھا جودنیا میں مستقبل میں آنے والے واقعات پرمغز ا ظہار خیال کرتے تھے۔ سیاسی معاملات کے تجزیہ کرنے کیلئے اتنی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی جتنی عالمی معاملات، عالمی سیاست اور اس پر پاکستان پر اثرات پر اظہار خیال کرنے کیلئے یقینا پڑھنا اور دنیا میں ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھنا نہائت ضروری ہے جدہ کے موجود ہ قونصل جنرل خالد مجید انکے ماتحت کام کرتے رہے ہیں، جسطرح سابق سفیر چوہدری محمد نوازدنیا کے معاملات پر نظر رکھتے تھے وہی تعلیم انہوں نے اپنے صاحبزادے محمد ناصر چوہدری کو بھی دی ہے وہ عالمی معاملات پر سیر حاصل اور پر مغز کالمز اور تجزیے لکھتے ہیں جو پاکستان اور بین الاقوامی جرائد کے زینت بنتے ہیں گزشتہ دنوں انکے کالم NATION THE میں شائع ہوے جو پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے متاثر کن تھے اگر کوئی قاری پڑھے اور سمجھنے کی کوشش کرے انکی تحریر سے متاثر ہوکر میں یہ کالم لکھ رہا ہوں انکی ایک تحریر کہتی ہے کہ ہندوستان کے حالیہ انتخابات میں مودی کو نہیں بلکہ NDAکومینڈیٹ ملا ہے جسے ہندوستانی ووٹرز نے پانچ سال کیلئے ملک کی قیادت سونپی ہے حتمی نتائج نے ایگزٹ پولز کی تردید کی جو کہ کسی بھی ہندوستانی کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے گئی تھی ناصر چوہدری نے اپنے کالم میں تین اہم نکات پر اظہار خیال کیا جس میں انتخابات سے پہلے کے واقعات، مودی برانڈ کے کم ہونے کی وجوہات، اور پاکستان کو پاک بھارت دوطرفہ تعلقات سے کس طرح رجوع کرنا چاہیے، جو غیر مستحکم ہے اور مسلسل نیچے کی طرف جانے کا خطرہ ہے۔ایک دہائی تک بی جے پی اور مسٹر مودی کی آہنی ہاتھوں سے چلنے والی حکمرانی ایک اور سابق ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور کی عکاسی کرتی ہے۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کی طرف لے جانے والے واقعات بالکل اندرا گاندھی کے ایمرجنسی دور کی طرح ہیں، جس میں انہوں نے بنیادی حقوق کو معطل کیا، ملک کے سماجی تانے بانے کو پامال کیا، اور شہری آزادیوں کو پامال کیا۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے چلائی جانے والی ہائی وولٹیج مہمات نے اس پس منظر میں اس تاریخی الیکشن میں اضافہ ہی کیا۔ بالغ حق رائے دہی کی دنیا کی سب سے بڑی مشق کے بعد کے واقعات نے ہندوستانی آئین کے تحت درج بنیادی حقوق اور انصاف پسندی کے بارے میں سنگین سوالات اٹھائے۔ لہٰذا، یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایک نئے سرے سے متحرک اپوزیشن نے، جو انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس بلاک کے طور پر مقابلہ کرتے ہوئے، اسے ''سمودھن'' یا آئین کو بچانے کی لڑائی کے طور پر کھڑا کیا تھا۔ وزرائے اعلیٰ - دہلی اور جھارکھنڈ کو بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا گیا، غیر معمولی طور پر کئی ممبران پارلیمنٹ کو سیکورٹی کی خلاف ورزی کے خلاف احتجاج کرنے پر پارلیمنٹ سے نکال دیا گیا، اور لوک سبھا کے ایوان زیریں کے متوالی نے حزب اختلاف کو اپنی آواز بلند کرنے کے جمہوری حق سے انکار کیا۔ دیگر اہم واقعات میں مدھیہ پردیش، گوا (دو بار)، کرناٹک اور مہاراشٹر میں منتخب حکومتوں کو بے دخل کرنے کے لیے ’آپریشن لوٹس‘ کا مسلسل نفاذ شامل ہے۔ آخری معاملہ اہم ہے کیونکہ بی جے پی نے بالادستی کے لیے اپنی نظریاتی اتحادی شیو سینا کے ساتھ صفوں میں پھوٹ ڈالی تھی۔ بھارتی انتخابات کے نتائج کے بعد آخر کار، پاکستان کو بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کی بھول بھلایاں سے کیسے گزرنا چاہیے؟ خاص طور پر تاریخ کے ایک طویل ریکارڈ کے ساتھ، تنازعات، بداعتمادی، تلخی، اور کیا تیزی سے ایک ناقابل عبور خلیج لگتا ہے دور ہوگی ؟ پاکستان کی ریاست بھارت کی پالیسی کی تلاش میں بے تاب پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں زیادہ اہمیت کی حامل ہے جب بحرالکاہل میں اثر و رسوخ کا مقابلہ بڑھتا جا رہا ہے، یوکرین کی جنگ، مشرق وسطیٰ کا تنازعہ، اور ہمارا سٹریٹجک پارٹنر مزید مقابلے کی زد میں آ رہا ہے۔معاملات صرف پاکستان کی اندرونی خرابی کے خود ساختہ بھنور کی وجہ سے بڑھے ہیں جو خود کو معاشی بحران، گہرے پولرائزیشن، کشیدہ سرحدوں، اور دہشت گردی کی وجہ سے خارجی پالیسی کو بڑھاوا دیتے ہیں اور پالیسی کے انتخاب کو سختی سے روکتے ہیں۔
پاکستان کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دونوں ریاستوں کے درمیان عدم مشغولیت یا یہاں تک کہ مناسب دوطرفہ تعلقات کے انعقاد کی ہندوستانی پالیسی کو نئی دہلی کے نارتھ اور ساو¿تھ بلاک میں کسی حد تک ادارہ جاتی شکل دی گئی ہے۔ بھارتی قیادت کو پاکستان سے بات کرنے کی ترغیب نظر نہیں آتی۔ تجارت کے معاملے پر بھی ہمارا دو طرفہ تجارتی عدم توازن مسلسل ہندوستان کے حق میں رہا ہے۔ نہ ہی ہماری برآمدات اس کی تکمیل کرتی ہیں جو ہندوستان دنیا سے درآمد کرتا ہے۔ 20 سال پہلے، پاکستان کی معیشت ہندوستان کے مقابلے میں 18 فیصد تھی۔ اب یہ تعداد صرف 9 فیصد ہے۔ پاکستان کی طرف سے اہم رعایتوں کا نتیجہ صرف ایل او سی پر جنگ بندی کی صورت میں نکلا، اس کی وجہ اس وقت کے مشرقی تھیٹر میں ہندوستان کی مصروفیت تھی۔بہت لمبے عرصے سے، پاکستان نے ''مذاکرات کے لیے تیار'' کا کھیل کھیلا ہے اور جیو اکنامکس/جیو اسٹریٹجی، تجارت اور محصولات کے درمیان خلل ڈالا ہے۔ بھارت نے مذاکرات کے سلسلے میٰں ہمیشہ چالاکی اور مکاری کا مظاہرہ کیا ہے جس سے مذاکرات باقاعدہ نہ ہوسکے موجودہ عالمی صورتحال کے تناظر میں اب یہ ضروری ہوچلا ہے کہ ا پنے اختلافات کو ترک کرتے ہوئے، ہندوستان کے ساتھ وقفے وقفے سے ہمارے لوگوں کی سماجی و اقتصادی خواہشات کو پورا کرنے کی بنیاد رکھنی چاہیے۔ ہندوستان کے بارے میں ایک طویل مدتی پالیسی، تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ، اس ملک کے ساتھ ہمارے قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے وضع کی جانی چاہیے۔ اس پالیسی میں صبر اور استقامت نظر آنا چاہئے سرحد پار دہشت گردی کا حل'' تلاش کرنے کے بارے میں مسٹر جے شنکر کا حالیہ بیان سفارت کاری کے ایک تجربہ کار ماہر کا ایک اہم بیان ہے۔ کچھ لوگ اسے آغاز کے طور پر تعبیر کرنا چاہیں گے لیکن یہ پلوامہ طرز کے جارحانہ انداز کا زیادہ اشارہ ہے، خاص طور پر بی جے پی اور مسٹر مودی کے ووٹروں کی کمی کو بڑھانے کے لیے۔ ہمیں اس کے باوجود کشمیریوں کے حق خودارادیت کے عالمگیر تصور کے لیے ہر ممکن تعاون جاری رکھنا چاہیے۔ مشرق وسطیٰ میں ہونے والے واقعات نے عالمی رائے عامہ کے جذبات کو اس مقصد کی طرف بڑھایا ہے۔ کشمیر میں خاموشی خوفناک ہوسکتی ہے اور آنے والی چیزوں کی علامت ہوسکتی ہے۔ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو زیادہ موثر بنانے اور سرگرم بنانے کی ضرورت ہے، خارجہ پالیسی کو عالمی محاذ پر قابل قبول ہونے کیلئے پاکستان کی معاشی صورتحال کی بہتری ضروری ہے، مانگنے والے کے مطالبات نہیں ہوتے اسکا کام صرف سننا اور عمل کرنا ہوتا ہے یہ ہی ہماری صورتحال ہے بیرون ملک تعلقات میں ہمارے ایجنڈے کی پہلی شق ”قرض“ لینا ہے جو کشمیر کے سلسلے ہمارے مقدمے کونقصان پہنچاتا ہے۔