بی بی یاد آتی ہے

تحریر۔فرخ بصیر

سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید کو چاہنے والے اور جیالے جیالیاں ان کی سالگرہ پر ہر برس کیک کاٹتے اور ان کی عوام دوست پالیسیوں اور ملک و قوم کے لیے خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے نظر آتے ہیں مگر اس کے بعد پتہ نہیں انہیں کیوں فل سٹاپ لگ جاتا ہے۔بالخصوص پنجاب میں جو آبادی کے لحاظ سے ملک کا اکثریتی صوبہ ہے وہاں جس طرح بی بی کے جیالوں کو گزشتہ 43برس سے اقتدار سے دور رکھ کر انکا سیاسی و معاشی استحصال کیا جا رھا ہے وہ پارٹی قیادت کی آنکھوں سے مخفی ہے نہ جیالوں سے۔اس مرتبہ بھی جیالے روایتی انداز میں اپنی عظیم قائد کی 71ویں سالگرہ کے کیک کاٹیں گے حتکہ اس کیک کٹنگ میں بھی ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی دوڑ ہو گی کہ کون کیک پہلے اور کون دیر سے کاٹتا ہے،حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ کس کے ہاں کب کیک کٹنا ہے اور کس نے شرکت کرنی ہے،آفرین ہے پنجاب کے ان جیالوں جیالیوں پر جو تمام تر شکووں شکایتوں اور ابتلاوں کے، نہ صرف دور دراز سے ان تقاریب میں شرکت کیلئے پہنچتے ہیں بلکہ پورے جوش و جذبے سے بی بی کی سالگرہ میں شرکت کرتے ہیں، مگر تنظیمی طور پر ایک اور مضبوط ہونے کو تیار نہیں کیونکہ انکی ذاتی انائیں پارٹی قیادت کی عزت سے بھی بڑی ہو چکی ہیں جس کا نمونہ سب این اے 127کے انتخابات میں دیکھ چکے ہیں۔آپ پیپلز پارٹی کے کسی بھی واٹس ایپ گروپ میں چلے جائیں،سوائے ایک دو کو چھوڑ کر باقی سب میں گروپ ممبران کا سارا زور سیلفیوں اور ذاتی نمود و نمائش پر ہو گا،پہلے پارٹی کی مقامی اور پھر اپر لیول کی لیڈر شپ پر تنقید سے بات شروع کرتے کرتے اچانک یہ آپس میں ایک دوسرے پر طنز و مزاح کے تیر برساتے نظر آتے ہیں۔سوشل میڈیا نے ہمارے رویوں سے باہمی احترام،برداشت اور میانہ روی کو چھین کر ہماری زبانوں کو بے لگام کر دیا ہے۔ہم ایک دوسرے سے مکالمہ کرتے ہوئے اچانک اتنے پرسنل ہو جاتے ہیں جس کا ادراک ہمیں اپنے عزیز ترین ساتھی یا دوست سے ہاتھ دھونے کے بعد ہوتا ہے،مجھے یہاں چیئرمین بلاول بھٹو کے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کی تقریب حلف برداری میں کی گئی تقریر کے سنہری الفاظ یاد آ رھے ہیں کہ "بد قسمتی سے آج ہمارے کارکن کی جگہ ٹک ٹاکرز نے لے لی ہے"
بات ہو رہی تھی بی بی شہید کی سالگرہ کی مگر کسی اور طرف نکل گئی۔ہونا تو یہ چاہیے کہ جس طرح لاہور میں 2023میں جیالوں نے "جشن بے نظیر" کی یاد گار تقریب کا اہتمام کیا تھا اسی طرح کی تقریبات کا اس سال بھی اہتمام کیا جاتا یا پارٹی کے دانشوروں اور سیاسی مخالفین کے درمیان ڈائیلاگ کا اہتمام کیا جاتا مگر عید الضحی کے باعث ایسا ممکن ہوتا دکھائی نہیں دیتا،بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب سے جیتی گئی نشستوں کی بنیاد پر آج مرکز اور پنجاب میں اپنی سیاسی سپیس کی تلاش میں سرگرداں ہے،وہ اسے بجٹ پاس ہونے سے پہلے یا بعد میں ملتی ہے یا نہیں اس کا انحصار وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کی سیاسی دانش اور انکے والد سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صوابدید پر ہے۔کاش آج بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو پنجاب میں پیپلز پارٹی کو اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔وہ اپنے دور میں جس طرح پارٹی کارکنوں اور تنظیموں سے ذاتی اور ای۔میل رابطے میں رہتی تھیں اسکی وجہ سے نہ صرف وہ پنجاب کی سیاسی نبض پر ہاتھ رکھتی تھیں بلکہ اپنے سیاسی کیڈر کو بھی رہنمائی فراہم کرتی تھیں۔آج وہ عظیم ہستی ہم میں نہیں مگر انکے نوجوان صاحبزادے اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہمیں خوش قسمتی سے دستیاب ہیں مگر جیالے انکے وڑن اور پالیسیوں کے مطابق خود کو منظم و متحد نہیں کر پا رھے اور یہی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے میں بڑی رکاوٹ ہے۔جیالوں نے اگر پنجاب میں اپنی جگہ دوبارہ حاصل کرنی ہے تو بھارت کے عظیم۔لیڈر بی آر امبیدکر کے سنہرے الفاظ یاد رکھیں جو انہوں نے آل انڈیا ڈیپریسڈ کلاسز کانفرنس سے ناگپور میں جولائی 1942میں خطاب کے دوران کہے تھے۔اور وہ تاریخی الفاظ یہ تھے,(EDUCATE, AGITATE ORGANIZE)

ای پیپر دی نیشن