21جون : دختر مشرق ، وزیراعظم کی روشن زندگی کے نمایاں پہلو

 پیام سحر …سید مشرف کاظمی
syedmusharafkazmi786@gmail.com

آج پاکستانی پہلی خاتون وزیر اعظم سانحہ لیاقت باغ راولپنڈی میں جام شہادت نوش کرنے والی دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی پجھترویں سالگرہ ہے کے موقع پر اگر یہ کہا جائے کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دنیا میں کِسی کے آنے سے جانے سے نظام قدرت پر کوئی اثر نہیں پڑتا مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کا آنا بھی انوکھاہوتا ہے اور دنیا سے رخصتی بھی عوام کے لیے مثال بن جاتی ہے۔ دنیا میں روزانہ سیکڑوں لوگ پیدا ہوتے ہیں اور ہزاروں سفر آخرت کی طرف رواں ہو جاتے ہیں چند دن ان کا چرچا ہوتا ہے اور پھران کے وارث ہی بھول جاتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ مر کے بھی زندہ رہتے ہیں۔ ان کی سوچ،نظریہ اور عوام دوستی اور غریب پروری انہیں عوام کے دِلوں میں زندہ رکھتی ہے۔ ایسی ہی شحصیت محترمہ بے نظیر بھٹو کی تھی جس کو ہم سے جدا ہوئے تقریباََ چودہ سال گزر گئے ہیں مگر آج بھی وہ عوامی دِلوں پر راج کر رہی ہیں۔کسے خبر تھی کہ لاڑکانہ کے ایک صاحب ثروت اور بڑے زمیندار کے گھر جنم لینے والی بچی آنے والے وقتوں میں عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کا تاج سر پر سجائے گی اور یہ بھی کسی کو خبر نہ تھی کہ یہ لڑکی اپنی اوائلی عمری میں باپ کی شہادت کا صدمہ برداشت کرے گی اور عین جوانی میں سگے بھائی کے قتل کا صدمہ برداشت کرے گی۔ بلاشبہ ان دل سوز اور کٹھن مراحل نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک عہد ساز شخصیت بنادیا۔ بچپن اور لڑکپن جناب ذوالفقار علی بھٹو جیسے شفیق باپ کی زیر نگرانی گزارا اور جوانی میں بھی اپنے باپ کے ساتھ پابند سلاسل رہی۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ تکالیف اور پریشانیاں محترمہ بے نظیر بھٹو کا حصہ بن گئیں۔ محترمہ کا منصب ان عظیم شخصیات میں سے ہے جو خود تاریخ لکھتے ہیں اور ان کی بھی تاریخ رقم ہوتی ہے۔ زندگی میں محتر مہ نے ایسے تاریخی نقوش چھوڑے ہیں جو عملدرآمد کاپیغام دیتے ہیں اور ان کے نقش قد م پر چل کر ہی مستقبل کی تاریخ رقم ہو سکتی ہے۔جسے اپنے افکار و کردار سے محترمہ نے رقم کیا ہے۔ اپنے شہید باپ کی طر ح وہ بھی ایک ہمہ جہت شخصیت تھیں باالفاظ دیگر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شہید بھٹو کی سیاسی فکر کی وارث اور بھٹو اساس کی امین تھیں، انہوں نے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ شہید بھٹو نے ااپنی آخری تحریر ( میری سب سے پیاری بیٹی ) میں نے جو خواب دیکھا تھا اس کی زند ہ تابند ہ تصویر محترمہ کی ہے۔ وہ اپنی تحریر کر دہ سوانح حیات دخترِ مشرق یعنی ( مشرق کی بیٹی) میں قلمبند ی کر تی ہیں کہ میری سیاسی افکار کی اساس شہید بھٹو کے وہ افکار ہیں جو زمین مخلوق خدا، مظلوم او رغیر مراعات یافتہ عوام کے لیے زندگی کا پیغام دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کا مقد ر بنایا ہے۔ محترمہ کی زند گی کا اختصار سے جائز ہ لیا جا ئے تو اس عشق کی تکرار ان کی اپنی زندگی پر غالب وحاوی نظر آتی ہے۔ وہ حکو مت میں ہو ں تو غریبو ں کے بچو ں کو گو د میں لے کر پولیو کے قطر ے پلا تی نظر آتی تھیں اور اقتدار سے باہر ہو ں تو سانحہ کارساز کے بعد نو جو ان شہیدوں کے بچو ں کو اپنی گود میں لے کر پیار کرتی نظر آتی تھین۔ اپنی سار ی زندگی انہو ں نے غریبو ں کے لیے جی کر دکھا دی۔ بلا امتیاز کہ وہ وزیراعظم ہیں یا قائد حزب اختلاف۔ قائد باپ کی بیٹی ہر دور کی قائد نظر آتی تھیں اور آج بعد از شہادت فضا ان کے نام سے معطر معطر ہے۔ انہوں نے غریب عوام کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پر وگرام سے ہر غریب کے دروازے پر چیک / کیش پہنچا کر غریبوں کی غر بت میں شرکت کا احساس دلا تی تھیں۔ اللہ کی یہ بر کت ان کے نا م کے طفیل سے پس ماندہ ، بے کس خواتین کو حوصلہ دیتی تھیں۔ ملک میں ان کے نام سے بے شما ر ایسی اسکیمیں زیر عمل تھیں جن کافلسفہ و عمل عوام کی بہبود اور بہتری تھی۔ یہ ان کی شخصیت کا سحر اور کرشمہ تھا جو انہیں قدرت نے عطا کیا تھا۔ وہ ہم میں نہ ہو کر بھی ہما رے ساتھ ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالی ٰ نے ہما رے اس ایما ن کی صداقت کی تو ثیق کی ہے کہ شہید کو مر دہ نہ کہو وہ زند ہ ہیں۔ اور زندگی کو ایک حوصلہ دیتی ہے۔ کروڑوں عوام نہ صر ف پاکستان بلکہ اس سے باہر بھی ان کے فکر وعمل کا ذکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ عالم اسلام کی پہلی خاتون تھیں جو عوام کے انتخاب کے ذریعے دوبارہ وزیر اعظم کے اعلیٰ منصب پر پہنچیں اور جبر وستم کی قوتیں انہیں جسمانی طورپر سیاسی افق سے علیحد ہ کرتیں تب بھی تیسری بار یقیناً مادر وطن کی منتخب وزیر اعظم ہوتیں۔شاید ہم اس قابل ہی نہیں تھے کہ اس کی قدر کر سکتے یا قدرت نے ہماری بے قدری کی وجہ سے وہ ہم سے چھین لی وہ اگر کسی اور ملک میں پیدا ہوئی ہوتی ہو سکتا ہے آج بھی زندہ ہوتی اور دنیا اس کی فہم و فراست سے فائدہ اٹھا رہی ہوتی وہ پاکستان میں پیدا ہوئی مگر اس کے باوجود دنیا نے درجنوں اعزازات سے نوازکر دراصل ان اعزازات کو اعزاز بخشا ذراغور کیجیئے دنیا کی پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم ہونے کے علاوہ کتنے ایوارڈ بی بی کو حاصل ہوئے۔1۔ گیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں 1996میں دنیا کی 50عظیم خواتین میں شامل۔2۔ انسانی حقوق کی پاسداری پر برن کراوسکی ایوارڈ 1998۔3۔ ریڈ کلف ایوارڈ 1989۔4۔ مراکش کا سب سے بڑا سول ایوارڈ 1989۔5۔ یو نی نیم کی طرف سے نیول فاﺅنڈیشن ایوارڈ 1990۔6۔ گوفوشیون آزیری ایوارڈ ٹوکیو 1996۔7۔ بوسینا کا صدارتی ایوارڈ 1996۔8۔ لاس اینجلس شہر کا اعزازی چابی 1995۔9۔ امریکہ کی طرف سے انٹرنیشنل سائنس میڈل 1995۔10۔ لاس اینجلس کی کیلی فورنیا یونیورسٹی کی طرف سے میڈل 1995۔11۔ ہاروڈ یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر آف لاء کی اعزازی ڈگری 1995۔12۔ فلپائن کی یونیورسٹی کی طرف سے ڈائریکٹوریٹ کی اعزازی ڈگری 1996۔13۔ ٹوکیو یونیورسٹی کی طرف سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری 1996۔14۔ کرغستان کی سٹیٹ نیشنل یونین کی طرف سے اعزازی پروفیسر کا عہدہ 1995۔15۔ قازقستان کی یونیورسٹی میں اعزازی پروفیسر کا عہدہ 1995۔16۔ ٹوکیو ایلومینی ایسوسی ایشن کی اعزازی ممبر شپ1996۔17۔ امریکن بائیو گرافیکل کی طرف سے ملینٹم ایوارڈ 1996۔18۔ امریکن اکیڈمی ایوارڈ2000۔اور بہت سے عالمی اعزازات رکھنے والی محترمہ بینظیر بھٹو واقعی ہماری اوقات سے ماوریٰ تھیں۔ وہ کسی اور دنیا کیلئے ہی بنی تھیں اور اسی لیے قدرت نے ہمیں ان سے محروم کردیا جب تک وہ پاکستان کا حصہ تھیں وہ کونسا ظلم کونسا ستم ہے جو ہم نے ان پر نہیں ڈھایا۔ ابھی نوجوانی اور زمانہ طالب علمی کی بے فکرعمر تھی کہ ان سے عظیم باپ چھین لیا۔ بوڑھی ماں کے ساتھ جیلوں میں ڈالا۔ جوان بھائیوں کی پہلے جلا وطنی میں جدائی برداشت کی پھر وہ دونوں بھی چھین لیے گئے۔ ابھی ایک بھائی کا سوگ بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ حکومت چھین لی اور خاوند کو قید کرلیا گیا۔ پھر تو جیسے مصائب کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ خاوند جیل میں اور خود بچوں کیلئے دیس دیس غریب الوطنی ایک طرف بچوں کی ذمہ داری انکی تعلیم و تربیت بوڑھی اور بیمار والدہ کی تیمار داری اوردوسری طرف خاوند کو قید کے باوجود عزم و ہمت اور حوصلہ و بہادری کی ایسی چٹان بن کر حالات کا مقابلہ کیا کہ وقت کے آمر نے بھی مفاہمت میں ہی عافیت سمجھی۔ اور دار اصل یہ بھی ایک چال تھی محترمہ بینظیر بھٹو کو واپس لانے کی تاکہ ہمیشہ کیلئے راستہ سے ہٹا سکیں پہلی بار وہ 18اکتوبر 2007ء کو کراچی اتریں تو عاشقوں اور جیالوں کا ایک سیلاب امڈ آیا اور ابھی محترمہ راستے میں ہی تھیں تو پہلے سے نصب شدہ بم پھٹ گیا وہ خود تو ٹرک کے محفوظ حصے میں ہونے کی وجہ سے بچ گئیں مگر 250جیالے اپنی قائد پر قربان ہوگئے۔ سینکڑوں عمر بھر کیلئے معذور ہوگئے اس اندوہناک واقعہ نے بھی دکھوں کی پلی بی بی کو خوفزدہ نہیں کیا بلکہ وہ نئے حوصلہ اور جذبے سے عوا م کو حقوق دلانے پر کمر بستہ ہوگئیں۔ اپنا صدمہ بھول کر اورسکیورٹی کے خدشات کو نظرانداز کرکے میدان میں نکل آئیں اور پھر دشمن نے دوسرا وار راولپنڈی کے لیاقت باغ میں کیا اس بار دشمنوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑ پہلے ایک ماہر نشانہ باز نے گولی ماری اور پھر خود کش دھماکہ کردیا۔بی بی نے اپنے درجنوں جانثاروں کے ساتھ جنت کو سدھارگئیں اور پاکستانی قوم کو ہمیشہ کیلئے شرمندہ اور افسوس زدہ چھوڑ گئیں۔ محترمہ کا قتل ذاتی دشمنی یا انفرادی عمل کا حصہ نہیں تھا بلکہ یہ جمہوریت دشمن قوتوں کی سازش تھی اسی لیے چودہ سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اس سازش کا کوئی کھوج نہیں لگایا جا سکا ان جمہوریت دشمن قوتوں کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پانچ سال پیپلز پارٹی کی حکومت رہی مگر کیس آگے نہیں بڑھا۔ بہرحال یہ دکھ بی بی کے چاہنے والوں کیلئے شاید دائمی رہے کہ بی بی کے قاتل کیفر کردار تک نہیں پہنچ سکے اور شاید پارٹی کی قیادت سے شکورہ بھی ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہو سکا محترمہ بے نظیر بھٹو شہید 21جون 1953ء کو جب پیدا ہوئی تو اس وقت شہید ذوالفقار علی بھٹو ملک سے باہر تھے کراچی کے ہسپتال میں بی بی کے پیدا ہونے پر ان کو اطلاع دی گئی تو وہ واپسی کی تیاری کرنے لگے اور جب بیٹی کو آکر دیکھا تو خوشی سے نہال ہوگئے حالانکہ روایتی سندھی ماحول میں بیٹی کی پیدائش پر خوشی نہیں منائی جاتی تھی مگر نوجوان بیرسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے بیٹوں سے زیادہ خوشی کی۔ ان کی پیش بین آنکھیں شاید ننھی بے نظیر کے مستقبل کو دیکھ رہی تھیں اور ابھی بی بی نرسری میں ہی زیر تعلیم تھی تو بھٹو وفاقی کابینہ میں شامل ہوگئے۔ اس طرح محترمہ کی بچپن سے ہی تربیت حکمرانی کیلئے شروع ہوگئی۔ مگر 1969ء کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی وجود میں آئی اور عام انتخابات میں عوام نے بھٹو کو "قائد عوام"بنا دیا تو نوجوان بے نظیر بھٹو کو جمہویت اور عوام سے محبت ہونے لگی بھٹو شہید کے پھانسی کے موقع پر بھی محترمہ بینظیر بھٹو اپنی والدہ کے ہمراہ سہالہ پولیس ریسٹ ہاﺅس میں نظر بند تھیں ظلم کے اس انتہائی اقدا م پر بی بی کے بھائی تو صبر کا دامن چھوڑ گئے مگر بی بی نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا اور ملک میں عوا م کے اقتدار کی بحالی کا عزم بھی کرلیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ بھٹو کی بیٹی نے عوام کی طاقت سے کس طرح آمرانہ جبر سے مقابلہ کیا اور سلطانی جمہور کو بحال کیا محترمہ اس کو بڑی کامیابی سمجھ رہی تھیں مگر سازشیں نئے سرے سے تیار ہو رہی تھیں پھر الزمات مقدمات جیل اور جلا وطنی کے طویل دور کے بعد بی بی 2007ء میں وطن واپس آئیں تو ظالموں نے ہمیشہ کیلئے راستے سے ہٹا دیا لیکن جس طرح بھٹو کو مارنے سے پیپلز پارٹی یا جمہوریت ختم نہیں ہوئی اسی طرح بی بی کی شہادت سے ان کا نظریہ اور جمہوریت ختم نہیں ہوئی اور اب بی بی کی نشانی بلاول بھٹو زرداری اپنی عظیم ماں کا عظیم ورثہ سنبھالنے کیلئے تیار ہیں۔

ای پیپر دی نیشن