کیا واقعی فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کا ہے

 الٹ پھیر.... شاہد لطیف
kshahidlateef@gmail.com

ایک نہیں دو نہیں کئی مرتبہ سٹی ٹریفک پولیس نے پیدل چلنے والے افراد کے لئے ایڈوائزری ( مشورہ) جاری کی کہ سڑک پر پیدل چلنے والے افراد ہمیشہ فٹ پاتھ کا استعمال کریں،اوور ہیڈ بریج یا انڈر پاس کا استعمال کریں۔چلتی ٹریفک کے درمیان کبھی سڑک عبور کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اسی طرح شاہراہوں پر کسی بھی گاڑی / موٹر سائیکل چلانے سے پہلے ڈرائیونگ کے اصولوں سے واقفےت اور سیفٹی قوانین کی آ گاہی مہمات بھی بارہا چلائی گئیں۔ایسی ہی ایک مہم میں کچھ عرصہ پہلے ناظم کراچی وسیم اختر نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی کے تمام فٹ پاتھ پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کریں گے: ” میں اکیلا نہیں ہوںسپریم کورٹ، رینجرز اور پولیس سمیت ادارے ہمارے ساتھ ہیں ‘ ‘۔دونوں باتوں کا بھلا کوئی کیا جواب دے۔یہ ب مہم بھی بس ’ آگہی ‘ مہم ہی رہی۔ کیاشہر کے ذمہ داروں کو علم نہیں کہ کراچی کی مصروف سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر چلنا پلِ صراط پر چلنے کی مشق ہے؟ اوور ہیڈ پلوں پر بھکاریوں اور نشئیوں کا قبضہ ہے۔ لڑکیاں اور خواتین بے چاری ان کو استعمال کرنے سے رہیں۔وہ مئیر تو اب نہیں رہے لیکن موجودہ مئیر صاحب!! کیا فٹ پاتھ اب بھی نیلام نہیں ہو رہے؟ جب فٹ پاتھ بکتے اور نیلام ہونے لگتے ہیں تو اس سے بلدیہ کو ایک روپیہ حاصل نہیں ہوتا۔پولیس اور بلدیہ کے اندر کے مافیا کا ضرور فائدہ ہوتا ہے۔ الٹا فٹ پاتھوں سے تجاوزات ختم کرنے پر بلدیہ کا خرچہ ہوتا ہے۔ذرائع کے مطابق صدر، نارتھ ناظم آ باد، طارق روڈ، لیاقت آباد اور کریم آباد وغیرہ میں معمولی سا پتھارہ اب بھی چار سے ساڑھے پانچ لاکھ روپے میں ’ فروخت © ‘ ہو رہا ہے۔ پولیس اور بلدیہ کو یومیہ تین کروڑ روپے مل رہے ہیں جو درجہ بدرجہ آپس میں تقسیم ہوتے ہیں۔اور شہری....سڑک پر چلنے پر مجبور !! اس سے ان علاقوں میں چھوٹے بڑے حادثات روز کا معمول ہیں۔مگر تمام ” ذمہ دار “ محض کاغذی کاروائی کر کے ’ فرض ‘ سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ ایک عذاب اور بھی پیدل چلنے والوں کو درپیش ہے۔وہ ہے ہیوی جنریٹروں کی کھلے عام شہر کے تجارتی علاقوں میں تنصیب۔ان سے عوام کو پیدل چلنے میں نہ صرف دشواریوں کا سامنا ہے بلکہ یہ جنریٹر ماحول میں بہت زیادہ آلودگی پھلا رہے ہیں۔ ان کا کثیف دھواں سانس کی بیماریوں کا موجب بن رہا ہے۔ ان کے دفاع میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ ڈسٹرکٹ میونسپل ایڈمنسٹرےٹر کو جنریٹروں کی تنصیب سے لاکھوں روپے ماہانہ وصول ہو رہے ہیں۔جب سندھ ہائی کورٹ میں دو رکنی بنچ نے فٹ پاتھ پر جنریٹروں کی تنصیب کے خلاف درخواست پر ماضی میں کراچی کے تمام ڈسٹرکٹ میونسپل ایڈمنسٹرےٹروں کو طلب کیا تو سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کسی ڈسٹرکٹ میونسپل ایڈمنسٹرےٹرکو ایسی رقم وصول کرنے کا کوئی اختیار ہی نہیں۔ان جنریٹروں نے فٹ پاتھ اتنی زیادہ جگہ لے رکھی ہے کہ پیدل چلنے والے سڑک پر چلتے ہیں۔یہ بنیادی حقوق کی کیا خلاف ورزی نہیں؟ درخواست گزار سماجی رکن رانا فیض الحسن نے موقف اختےار کیا کہ صدر ٹا?ن، جمشید ٹا?ن، لیاقت آباد، ناظم آباد اور دیگر علاقوں میں نجی بینکوں نے فٹ پاتھ ، سڑکوں کے کناروں پر ہیوی جنریٹر نصب کر دےے ہیں جن سے پیدل چلنے والوں کو شدید مشکلات ہیں۔ فٹ پاتھ پر موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو پارک کرنا بھی پیدل چلنے والوں کے لئے مصیبت بنا ہوا ہے۔دکان دار اور وہاں آنے والے محض اپنی سہولت دیکھتے ہیں۔ پیدل چلنے والے ان کی بلا سے سڑک پر چلیں۔ اس سلسلے میں یہ دلیل بالکل بے وزن ہے کہ دکانداروں اور خریداروں کے لئے پارکنگ کا کوئی انتظام ہی نہیں ہے۔ ٹھیک ہے یہ انتظام ہونا چاہےے لیکن اس کے نا ہونے کی سزا پیدل چلنے والے کیوں بھگتیں؟ اب بھی شہر کے مصروف علاقوں کے فٹ پاتھ پر جا بجا پتھارے نظر آتے ہیں۔ اور تو اور ایمپریس مارکیٹ کے آپریشن کے بعد ڈرائی فروٹ والیاں اب بالکل سڑک پر آ کر بیٹھی ہوئی ہیں۔شاید یہ مئیر کراچی اور آپریشن کی ٹیم سے کسی ’ علم ‘ کے زور سے غیبی ہو جاتی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ پورے شہر کے فٹ پاتھوں کو تمام طرح کی تجاوزات اور غیر قانونی پارکنگ اور موٹر میکنکوں سے اب کوئی ’ حجاج بن یوسف ‘ ہی آزاد کرا سکتا ہے۔ آپریشن کرنے کے بعد فٹ پاتھ دوبارہ برائے فروخت ہو جاتے ہیں۔ ایسا کون کرتا ہے؟ اس آپریشن کو کرنے والے ہی؟ آپریشن کو مستقل نفاذ درکار ہے جو کبھی بھی نہیں ہوتا۔ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ کراچی میں پیدل چلنے والوں کے حقوق سرے سے ہیں ہی نہیں۔ ٹریفک کے اصولوں کی معلوماتی کتاب میں درج ہے کہ کوئی شخص ٹریفک کے اشارے، چوک، پیدل چلنے والوں کی گزرگاہ اور فٹ پاتھ پر گاڑی پارک نہیں کر سکتا۔ چوک ےا اشارے کے قرےب گاڑی پارک کرنے پر ٹریفک پولیس برق رفتاری سے حرکت میں آتی ہے لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی پولیس والا فٹ پاتھ پر گاڑی کھڑی کرنے پر توجہ دے۔ بقول حضرت تنویر نقوی : ’ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنا?ں، ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا سناﺅں ‘۔ یہ آپ کے ساتھ بھی ہوا ہو گا کہ آپ رش کے اوقات میں فٹ پاتھ پر جا رہے ہیں۔سامنے سے مسلسل موٹر سائیکل والے قطار اندر قطار چلے آ رہے ہیں۔اگر آپ ’ اِن ‘ کو جگہ نہیں دیتے تو یہ ہارن بجائیں گے۔یہ ’ بائیکر ‘ ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ اِن کی ایک بھاری اکثریت پڑھی لکھی اور اچھی ملازمتیں کرنے والی ہوتی ہے۔لیکن بائیک پر بیٹھ کر ان کی عقل ماری جاتی ہے۔ یہ فٹ پاتھ کو اپنی خود غرضی اور آسانی کے لئے سڑک کے طور پر استعمال کر کے پیدل چلنے والوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ سڑک پر چلیں۔ اِن بائیکرز سے اگر پوچھیں : ” جناب !! آپ فٹ پاتھ پر موٹر سائیکل چلا رہے ہیں اوپر سے ہارن بجا کر راستہ دینے کو بھی کہتے ہیں۔بتائےے کہ میں کہاں جاﺅں؟ “ اس پر وہ ڈھٹائی سے دانت نکالے جواب دے گا : ” یہ کراچی ہے !!
 “۔ اب آپ کر لیں بحث!! ان بائیکرز کو بالکل بھی احساس نہیں کہ وہ کوئی غلط کام کر رہے ہیں۔ ان کے حق میں یہ دلیل کہ رش کا عالم ہے اسی لئے وہ فٹ پاتھ پر چلنے پر مجبور ہیں ، بے وزن ہے۔وہ بھی گاڑی والوں کی طرح انتظار اور صبر کریں۔ عام گلی محلوں میں سڑکیں 20-24 فٹ کشادہ ہوتی ہیں۔ جب دونوں طرف کے مکین اپنے مکانات کے گیٹ کے سامنے ©©” ریمپ “ بناتے وقت 6-10 انچ سڑک پر قبضہ کر لیں اوربعض افراد سماجی بیٹھک کے لئے گھر کے سامنے فٹوں کے حساب سے سڑک پر قبضہ کر کے تھڑا بنا لیں تو سڑک جگہ جگہ سے محض 14-15 فٹ ہی رہ جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسا ڈی ایچ اے میں کیوں نہیں ہوتا؟ اس لئے نہیں ہوتا کہ وہاں کے قوانین دیگر شہری بستیوں کے قوانین کی طرح محض کتابوں میں نہیں ہوتے۔ اِن کو سختی کے ساتھ نفاذ کرنے والے مستقل حرکت میں رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں میں اپنے ماموں زاد بھائی کے ہاں لاہور گیا۔ باتوں باتوں میں ذکر ہوا کہ اس کے بیٹے کے آفس والوں نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ہفتہ دس دن کوالا لمپور، ملائیشیا تفریحاً بھیجا۔اس نے واپس آ کر وہاں کے تجربات اور مشاہدات بتائے۔وہ چیز جس نے سب سے پہلے اسے متاثر کیا وہ وہاں کے فٹ پاتھ تھے!! وہ حیرانی سے بتلا رہا تھا کہ وہاں کے فٹ پاتھ پر لوگ چل رہے تھے۔ فٹ پاتھوں پر کہیں کوئی ڈیزل جنریٹر نظر نہیں آیا۔ دکانوں کے آگے فٹ پاتھ پر دکان کے پبلسٹی بوڑد ر بھی ندارد!! کوئی فروٹ ، یا پتھارے دار نظر نہیں آیا۔ان دس دنوں میں کوئی ایک بھی موٹر سائیکل فٹ پاتھ پر چلتی نہیں دیکھی۔فٹ پاتھ کا ایک ہی لیول تھا۔کہیں کسی دکان یا گھر کے سامنے بتدریج ڈھلان میں ہو کر پھر بتدریج پہلی والی اونچائی میں آ جاتا۔آنے جانے والی سڑک کے درمیان اگر کوئی گھاس کی پٹی یا سمنٹ کی بنی فٹ پاتھ قسم کی کوئی چیز تھی تو وہ بھی کراچی کی طارق روڈ، علامہ اقبال روڈ، کی طرح اس قدر اونچی نہیں کہ کسی بزرگ ، وہیل چیئر ، یا بچہ گاڑی والی کو تکلیف نہ ہو۔ شاید کبھی ہمارے فٹ پاتھوں کو ڈیزائن کرنے والوں نے بناتے وقت کاغذوں میں اس کو ایک ہی لیول پر رکھا ہو۔ لیکن پھر ہوا یہ کہ کوئی کمرشل پلازہ بنا۔بنانے والے نے اپنی الاٹ شدہ جگہ سے آگے بڑھتے ہوئے فٹ پاتھ کو اپنی مرضی سے نہ صرف اونچا کر دیا بلکہ خوشنما ٹائلیں لگا کر اس کو باقاعدہ پارکنگ کا درجہ دے دیا۔اب اس سے آگے اور پیچھے فٹ پاتھ کا لیول کچھ اور ہو گیا۔لہٰذا چھوٹے بچے، بچہ گاڑی، بزرگ، وہیل چیر والے بار بار تکلیف سے دوچار ہوتے ہیں۔ پھریہ بھی مکان ےا د کانوں والوں کی خودغرضی ہے کہ وہ اپنی سہولت دیکھتے ہیں کہ ان کی گاڑیاں بہ آرام آجا سکیں۔پیدل چلنے والوں کا کیا ہے۔بقول جالب: ’ یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے !!

ای پیپر دی نیشن