راہ حق ....ضرار چوہان
M.Zararchohan@gmail.com
غالب نے کہا اورکیا خوب کہا، بار بار پڑھ کر مزا دوبالا ہوجاتا ہے
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
کچھ دن قبل معروف اور ہر دل عزیز فنکار افتخار ٹھاکر کا مصاحبہ سن رہا تھا۔ باطنی طور پر وہ بڑے صوفی منش آدمی ہیں۔ٹائر پنکچر مشین ، یقین اور امید کے حوالے سے نصیر ملت پیر نصیر الدین نصیر ? کے ساتھ ایک تذکرہ افتخار ٹھاکر نے بیان کیا جو بہت وائرل ہو چکا ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ جس نے اللہ سے امید باندھی وہ دوبارہ کلمہ پڑھے کیونکہ اللہ سے تو یقین وابستہ کیا جاتا ہے۔ افتخار ٹھاکر صاحب کسی دور میں حرم پاک میں پہلی مرتبہ حج اور عمرہ کے لیے آئے لوگوں کی رہنمائی کی ڈیوٹی پر معمور تھے۔ ( یاد رہے کہ افتخار ٹھاکر پر ایک دور وہ بھی گزرا ہے کہ وہ ہر جمعہ حرم پاک یا مسجد نبوی میں ادا کرتے تھے )کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے یہ مجموعہ اضداد ہر صورت ایک امتیاز ہے۔ یہ رب کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں، شفاعت کاملہ انسان کو مل جائے تو پھر تمنا بیتاب اور غم سے خوگر انسان .... کیا مقام پاتا ہے!!اک دفعہ انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والی بوڑھی خاتون پہلی مرتبہ حرم پاک اور کعبہ کی زیارت کو آئیں۔ زبان کی نا آشنائی کی وجہ سے، افتخار ٹھاکر نے ترجمان سے کہا کہ وہ معززہ معمرہ خاتون سے کہیں کہ وہ میرا ہاتھ پکڑے میرے پیچھے پیچھے میری ایڑھی کو دیکھتے ہوئے چلتی جائیں۔ جب میں ان کی شہادت کی انگلی دباو¿ں تو وہ اس وقت سمجھ لیں کہ ان کے سامنے بیت اللہ شریف ہے۔ عین کعبہ شریف کے سامنے جب افتخار ٹھاکر نے ان کی شہادت والی انگلی دبائی خاتون نے نگاہ کعبہ شریف کی طرف اٹھائی کلمہ شہادت پڑھا اور وہیں ان کا دم مسافر ہو گیا اور سعودی حکام نے انہیں جنت المعلیٰ میں خاتون جنت کے قدموں کی طرف دفن کیا۔ وہ کون سا مسلمان ہوگا جس کی یہ خواہش نہ ہو کہ وہ اس مقام پر دفن ہو۔ لڑکپن کے زمانے میں راولپنڈی کے دالگراں بازار میں ایک ٹھیلے والے سے چاول چنے تو کبھی نان چنے کھایا کرتا تھا۔ مدینہ تو پھر مدینہ ہے اور راولپنڈی میں کپڑے کی معروف مدینہ مارکیٹ میں مجھے استاد کالے کے دھی بھلے اور دالگراں بازار میں خالد کے چاول چنے بہت پسند تھے۔ میں مزید جگہوں کی تفصیل برخاست کرتے ہوئے، اور انہی مقامات پر موقوف رہتے ہوئے، عرض کر رہا ہوں کہ میں اکثر ان دونوں کے پاس جایا کرتا تھا۔استاد کالا چلتا پھرتا پرزہ تھا۔ وہ راولپنڈی لیاقت ہال سے معروف سینموں تک پبلسٹی مینج کرنے لگا لیکن اس کے دہی بھلوں کا کرارہ پن ہمارے بانک پنے وچٹخار پنے کا قرار تھا۔ خالد صاحب کے چاول چنے تو کمیٹی چوک جمعہ بازار والے خان لالا کی کلفیوں کی طرح تازے رہے۔ میں مدت بعد وہاں سے گزرا وہ جوان ٹھیلے والا خالد (پیر فرتوت) بالکل بوڑھا ہو چکا تھا۔ میں نے بائیک ان کے پاس کھڑی کی۔ باوجود گیس اور موٹاپے کا مریض ہونے کے، چاول چنے کی ایک پلیٹ کھائی اور ان سے گپ شپ بھی کی اب چونکہ میں شہر کے نواح میں رہتا ہوں۔ اس کے بعد جب کبھی شہر جانا ہوا میں ان کے پاس ضرور جاتا۔ وہ مجھے مولانا ضیائ الرحمن خطیب فیصل مسجد اسلام آباد کی طرح ادیب صاحب کہا کرتے تھے۔وہ اکثر کہتے تھے" ادیب صاحب بس دعا کرو سوہنڑا اپنا تے اپنے سوہنڑے دا گھر وکھا دے وے“میں کہتا ان شائ اللہ ایک دن ضرور آپ جائیں گے۔پانچ ماہ پہلے میں شہر گیااور ان سے ملا۔ وہ بڑی چاہت سے ملے اورکہنے لگے ادیب صاحب پرسوں فلائیٹ ہے عمرہ کیلیے جا رہا ہوں۔ مجھے انہوں نے خوب چاول اور پیاز سلاد ڈال کر پلیٹ بنا کر دی۔میں نے کہا، ”چاچاجی جب بیت اللہ شریف پر پہلی نگاہ پڑتی ہے تو جو مانگا جائے وہ قبول ہوتاہے، آپ کیا مانگیں گے؟“میری بات سن کر وہ میرے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ بڑی دیر خاموش رہے، زمین پر نگاہیں ٹکاکے کہیں خیالوں میں گم تھے۔کافی دیر بعد وہ بولے،” ادیب صاحب، پچھلے دس دن میں میرے اپنے پرائے بہت سے لوگ مجھے ملنے آئے لیکن کسی نے مجھ سے یہ سوال نہیں پوچھا!!مجھے معلوم ہے یہ سوال بہت وزنی ہے، پوچھنا اتنا آسان نہیں اور جواب دینا اور بھی زیاد مشکل ہے لیکن آپ کو ضرور بتا?ں گا پھر انہوں نے کندھے سے رومال اتار کر گود میں رکھا اور بہت ٹھنڈی آہ بھر کر، بڑی گہری اور لرزتی آواز میں آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولے”میں پہلی نگاہ پڑتے بس یہی کہوں گا سوہنڑیاں میں ہنڑ واپس نہیں جانا، میں نوں ایتھے ای رکھ لے!“اللہ اکبر۔ انہوں یہ الفاظ کہے اور میرے سارے وجود پر لرزہ طاری ہوگیا۔ کتنی دیر مجھ پر بےخودی طاری رہی۔رمضان شریف سے چند دن پہلے میں پھر سے شہر گیا۔ میں سیدھا ان کے ٹھیلے پرگیا۔ ٹھیلے پر کپڑا رسی سے بندھا ہوا تھا۔ انکل نہیں تھے۔میں نے ساتھ ہوٹل والے سے پوچھا تواس نے کہا، ”چاچا خالد دو مہینے پہلے عمرے پر گیا تھا، جب وہ مدینہ شریف سے واپس مکہ آیا تو اچانک فوت ہو گیا اور وہیں دفن ہوگیا“۔میں یہ بات سن کر فوراً وہاں سے ہٹ گیا کیونکہ بہتی آنکھیں، میں کسی کو نہیں دکھانا چاہتاتھا۔ میں کتنی دیر انکل کے ٹھیلے کے پاس کھڑا رہا اور رشک کرتا رہا، ایک ایسا شخص جس نے ساری زندگی صبح سے شام ٹھیلے پر گزار دی، وہ انڈونیشیائی مائی صاحبہ کی طرح کتنا مقام پا گیا۔ ایک ہم ہیں بیت اللہ شریف پر پہلی نگاہ کیلیے دنیا بھر کی دعائیں اکھٹی کر کے وہاں جانے کی خواہش من میں بسائے ہیں اور چاچا خالد نے کیا عجب دعا مانگی اور کمال دعا مانگی کہ جنت المعلیٰ مدفن بن گیا۔حج جسمانی مشقت سے معمور عبادت ہے۔ اللہ تعالی تمام عازمین کی حج اور عمرے کی دعائیں قبول فرمائے آمین
وطن عزیز میں پاکستانیوں نے آزاد فضائ میں پہلی عیدالضحیٰ آزادی کے 63 دن بعد منائی۔ یہ پہلا موقع تھا جب مسلمانوں کو گائے ذبحہ کرنے میں آزادی ملی‘ 77 برس بعد ہندوستان میں آج بھی مسلمان بڑی عید خوف کے سایہ میں مناتے ہیں۔وہ گائے خرید سکتے ہیں نہ انہیں گائے ذبح کرنے کی آزادی میسر ہے اطلاعات ہیں کہ پاکستان میں 6.8 ملین جانوروں کی خریدوفروخت ہوئی یہ تعداد گزشتہ برس سے زیادہ ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا اس بار 7 ارب روپے کی کھالیں اکٹھا ہوئی ہیں۔صرف کراچی میں 99 ہزار اونٹ اللہ کی راہ میں قربانی کئے گئے۔ اگر حکومت مہنگائی اور بےروزگاری کے آگے بند باندھ دیتی تو قربانی کرنے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہو سکتا تھا۔ قربانی شعائر اللہ ہے اور یہ رب کی نشانی صبح قیامت تک جاری وساری رہے گی، پاکستان میں حج اور قربانی کے مہینے میں ہر سال جوش وجذبہ نیا رنگ لیتا ہے۔حج سے ایک روز قبل سانگڑ (سندھ) میں ایک عجیب واقعہ ہے، انسانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ غریب کسان سومرو بہان کی اونٹنی جاگیردار رستم شبیر کے کھیتوں میں چلی گئی، وڈیرے نے جانور کے مالک کو سزا دینے کے بجائے اونٹی کی دائیں ٹانگ کاٹ ڈالی۔ اس ظلم پر شہریوں میں غصہ بڑھا جس پر سندھ حکومت حرکت میں آئی اور ایف آر آئی درج کرکے وڈیرے اور اس کے پانچ ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا۔گورنر سندھ کامران ٹیسوری اس واقعہ کے بعد خاصے متحرک رہے ،انہوں نے سومرو بہان کو دو اونٹ گفٹ کئے۔ وہ کراچی میں زیر علاج اونٹی کو دیکھنے اینمل شیلٹر ہوم بھی گئے۔ہم گورنر سندھ کی اس ساری سرگرمی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان سے یہ عرض بھی کرتے ہیں وہ ملزمان کو بھی دیکھتے رہیں مباداکہ وہ کمزور پولیس نظام کے زینے سے سزا سے بچ نہ جائے۔ اس عید پر تل ابیب میں یہودیوں کے بڑے مظاہرے نے امریکہ اور اسرائیلی حکومت کو پریشان کر دیا۔ نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے باہر یہودی اپنے وزیراعظم کے خلاف احتجاج کرررہے تھے ان کا کہنا تھا کہ نتین یاہو کی غلط اور سفاک پالیسیوں کے باعث غزہ میں آگ وخون کی بارش ہورہی ہے۔ پوری دنیا اسرائیل کو نفرت کا نشانہ بنا رہی ہے مظاہرین نے اسرائیلی حکومت اور امریکی ارباب اختیار کی خوب” عزت افزائی“ کی۔پولیس نے مظاہرین کو ریاستی طاقت سے منتشر کر دیا، کچھ گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ امریکہ اور اس کے حواری مسلمان ممالک کے احتجاج کو خاطر میں نہیں لارہے تھے مگر لندن‘ نیویارک‘ تیل ابیب کے احتجاجی مظاہروں نے انہیں مخمصہ کا شکار کر دیا۔ اسرائیلی سفاکیت کے باعث 42 ہزار معصوم فلسطین شہادت کا جام پی چکے ہیں، یہ انسانی خون رائیگاں نہیں جائے گا امریکہ جو 42 مرتبہ سلامتی کونسل میں فلسطین ایشو ویٹوکر چکا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے جانبدار عمل سے دنیا اور اسکا نظام چلتا ہے اور چلے گا!! یہ اس کی بھول ہے” وقت کروٹ لے چکا ہے “کاش زمانے کی بدلتی ہوئی کروٹ کو 2 ارب مسلمانوں کے مسلم حکمران بھی محسوس کرلیں۔