رسول پاکﷺ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بڑی شان و مرتبت والے ہیں جن کو ظاہری زندگی میں نبی کریمﷺ کا دیدار اور صحبت نصیب ہوئی۔ ان خوش نصیب ہستیوں میں جلیل القدر صحابی خلیفہ ثالث امیر المو منین خلیفة المسلمین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ عام الفیل کے چھ سال بعد پیدا ہوئے۔ آپ کی نانی حضور کے والد ماجد کی حقیقی بہن تھیں اس طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ رسول پاک کی پھوپھی زاد بہن کے بیٹے تھے۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہوتا ہے جنہوں نے ابتدا ئے اسلام میں قبول اسلام کیا۔ جب حضور نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو آپ کی عمر ۳۳ برس تھی۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ آپ سے پہلے اسلام قبول کر چکے تھے۔
حضرت سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا عثمان غنی بچپن سے ہی اچھے دوست تھے۔ ایک مرتبہ آپ حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے ملاقات کیلئے تشریف لائے تو اسلام کے موضع پر گفتگو شروع ہو گئی۔ اللہ تعالی نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ میں ہدایت یابی کی صلاحیت پیدا فرما دی تھی۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ترغیب اور دعوت سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اللہ کے پیارے حبیب کی دو صاجزادیاں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنھا یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں اور آپ کا شرف کہ آپ ذوالنورین کہلائے۔
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا
آپ حافظ قرآن ، عالم قرآن ، جامع قرآن اور ناشر قرآن بھی تھے۔ اللہ تعالی نے آپ کو علم و حکمت کی بے شمار دولت سے مالا مال فرمایا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آپ کی علمی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : خدا کی قسم میں نہیں جانتا کہ میں آپ سے کیا کہوں ، مجھے کوئی بات ایسی معلوم نہیں جس سے آپ واقف نہیں اور نہ ہی ایسی کوئی بات بتا سکتا ہوں جس سے آپ بے خبر ہوں۔میں آپ سے کسی بات میں سبقت نہیں رکھتا ، نہ ہی میں نے تنہائی میں رسول کریمﷺ سے کوئی ایسا علم حاصل کیا ہے جو آپ تک پہنچاﺅں۔ آپ نے رسول اللہ کو اسی طرح دیکھا جیسے میں نے دیکھا ، آپ نے آپ کو ایسے ہی سنا جیسے ہم نے سنا ، آپ نے ان کی صحبت ایسی ہی پائی جیسے ہم نے پائی۔( نہج البلاغة)
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خا ص اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے دو مرتبہ ہجرت فرمائی ایک مرتبہ مکہ مکرمہ سے حبشہ کی طرف اور دوسری مرتبہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف۔