دفاعی بجٹ کے حوالے سے مفروضات اور اصل حقائق 

اگست 1990میں جب عراق نے کویت پر حملہ کیاتو اس وقت کویت صرف عرب ریاستوں ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ دولت مند ریاست تصور کی جاتی تھی۔ کویت کا کسی بھی ہمسایہ عرب ریاست سے کوئی بھی ایسا تنازعہ نہیں تھا جس کیلئے کویت کو سلامتی کی فکر لاحق ہوتی۔ لیکن جب عراق حملہ آور ہوا تواس کی 20000کی نفری پر مشتمل بری، ہوائی اور بحری فوج پیشہ وارانہ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ثابت ہوئی ہے۔ امریکہ نے کس طرح صدام حسین کو کویت پر قبضے کیلئے اکسایا بعدازاں 42ملکوں کی اتحادی افواج کے ذریعے کویت کی ریاست کو بحال کرایا یہ ایک الگ داستان ہے۔ لیکن دفاعی تجزیہ کاروں کا موقف تھا کہ کویت نے بظاہر کوئی بھی دشمن ملک موجود نہ ہونے کے باوجود اگر دفاع کیلئے جدید ہتھیاروں سے لیس فوج تیارکی ہوتی تو کویت کو تاریخی نوعیت کی تباہی اور لوٹ مار کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسی تناظر میں اگر ہم پاکستان کے دفاع کی طرف نظر ڈالیں تو تاریخ میں عرض پاک واحد ریاست ہے جسے قیام کے وقت سے بھارت کی ازلی دشمنی ورثے میں ملی جو پاکستان کی سلامتی اور آزادی کو تسلیم کرنے کو تیا ر ہی نہیں۔ یوں بھاری دفاعی اخراجات پاکستان کی لازمی ضرورت بن کر رہ گئے۔
تقسیم ہند کے بعد بھارت دو طرح سے پاکستان کی سلامتی کے درپے ہوا۔ ایک طریقہ پاکستان پر جنگ مسلط کر کے مقصد حاصل کرنا تھا لیکن پاکستانی فوج کی پیشہ ورنہ استعداد سے آگاہی کے پیش نظر اسے پاکستان کے اندر سے حمایت درکار تھی جو پاکستانی عوام کے اپنی افواج سے متعلق تحفظات کے ذریعے حاصل کی جاسکتی تھی اور اپنی اسی حکمت عملی کے ذریعے وہ 1971میں پاکستان کو دولخت کرنے کا کامیاب تجزیہ کر چکا تھا۔ 1971 کے بعد ا کی نظرباقی ماندہ پاکستان پر تھی مگر پاک فوج کی دفاعی تیاریاں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے کوہ ہمالیہ ثابت ہوئیں۔ جس کے سامنے بھارتی فوج کی حربی تربیت ہو یااس کے پاس موجود جدید ہتھیاروں کی بہتات کم وسائل کے باوجود پاک فوج کا حصار توڑنا بھاری فوج کیلئے ممکن نہیں تھا۔ اس کا حل بھارت نے پاکستان کے خلاف افغانستان کے راستے دہشت گردی کو بروئے کار لانے اور پاکستانی عوام کے دلوں میں اپنی فوج کے خلاف نفرت کے بیج بونے جیسے ہتھکنڈوں میں ڈھونڈنا چاہا۔ یہ پاکستان پر دو طرف حملہ تھا۔ جس سے تحفط کیلئے پاک فوج نے وطن کا دفاع بھی دونوں محازوں پر کرنا تھا۔ اس دو طرفہ دفاع کیلئے دفاعی اخراجات میں اضافہ پاکستان کی لازمی ضرورت تھی۔ خاص طور پر ان حالات میں جب بھارت مضبوط اور مستحکم معیشت کی وجہ سے اپنے دفاعی بجٹ میں ہر سال اضافہ کرتا چلا آرہا ہے۔ بدقسمتی سے اس کے جوا ب میں جب بھی پاکستان میں سالانہ مالیاتی بجٹ پیش کرنے کا وقت آتا ہے تو ملک میں ایک طبقہ پاک فوج کے دفاعی بجٹ کو موضوع بناکر پروپیگنڈے کا طوفان کھڑا کردیتا ہے۔
پاکستان میں جون کا مہینہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں بجٹ پیش کیا جاتا ہے، جوں ہی بجٹ کی تاریخ کا تعین کیا جاتا ہے تو بجٹ سے جڑے مختلف سوالات ذہن میں جنم لیتے ہیں جن میں دفاعی بجٹ سب سے زیادہ موضوع بحث بن جاتا ہے، اس حوالے سے بہت سے مفروضات میڈیا پلیٹ فارمز پر سامنے آتے ہیں۔جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،دفاعی بجٹ کو مفروضوں اور حقائق کی روشنی میں پرکھا جائے تو ان مفروضات کی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے۔جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر پاکستان کا دفاعی بجٹ بھی 80 کی دہائی سے مسلسل کم ہو کر جی ڈی پی کے 5.5 فیصد سے اب تک کی تاریخ کی سب سے کم قیمت پر، مالی سال 2023-24 میں جی ڈی پی کا 1.7 فیصد ہے۔گلوبل فائر پاور انڈیکس کے مطابق بھارت دنیا کی چوتھی بہترین فوج ہے جبکہ پاکستان اس فہرست میں 9 ویں نمبر ہے،گلوبل فائر پاور انڈیکس 60 سے زیادہ عوامل کے اعداد و شمار دیکھنے کے بعد فہرست مرتب کرتا ہے ان عوامل میں ملک کی جی ڈی پی، آبادی، فوجی طاقت، قوت خرید، وغیرہ شامل ہیں تاکہ کسی ملک کی بھرپور روایتی جنگ کی صورت میں لڑائی کی صلاحیت کا تعین کیا جا سکے۔ اِس بجٹ کا بھی فیصد حصہ اوبلیگیٹری پیمنٹس میں چلا جاتا ہے اور فوج اپنا ویلفیئر، شہدا کی فیملیز کی ویلفیئر اور جوانوں کی فلاح بہبود خود چلاتی ہے۔ پاکستان کے دفاعی بجٹ میں گزشتہ 5 سالوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، بلکہ سال 2019 میں اس میں 3 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی کمی کی گئی تاکہ قومی اقتصادی ترقی کو سہارا دیا جا سکے۔ پاک فوج کے ہر سال دفاعی بجٹ کے منصفانہ اور متوازن استعمال نے قومی بجٹ پر بوجھ کو کم کرنے کے قابل بنایا ہے۔
گزشتہ مالی سال 22-23 میں، کل قومی بجٹ کی ترتیب 9.5 ٹریلین روپے تھی، جب کہ دفاعی بجٹ 1.5 ٹریلین روپے (7.1 بلین امریکی ڈالر) تھا جو بجٹ کا 15.7 فیصد تھا۔مالی سال 23-24 میں، کل قومی بجٹ کی ترتیب 14.4 ٹریلین روپے ہے جبکہ دفاعی بجٹ 1.8 ٹریلین روپے (6.3 بلین امریکی ڈالر) مقرر کیا گیا ہے جو بجٹ کا صرف 12.5 فیصد بنتا ہے، جس سے یہ پاکستان کی تاریخ کے دفاعی بجٹ کا سب سے کم فیصد مختص ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کل قومی بجٹ کی ترتیب پچھلے سال کے مقابلے میں 53.6 فیصد بڑھی ہے لیکن اس کے برعکس دفاعی بجٹ میں پچھلے سال کے مقابلے میں 3 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔گزشتہ مالی سال 22-23 میں دفاعی بجٹ میں فوج کا حصہ قومی بجٹ کا 7.6 فیصد تھا۔ اسے بھی اس مالی سال 23-24 میں قومی بجٹ کے صرف 5.69 فیصد (824 بلین روپے) میں کافی حد تک کم کیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ دفاعی خدمات کے اس تخمینے میں فوجیوں کو وردی اور سویلین ملازمین کو ادا کی جانے والی تنخواہیں اور الانسز بھی شامل ہیں۔ انتظامی اخراجات میں ٹرانسپورٹ، پیٹرولیم، تیل، راشن، علاج، ٹریننگ وغیرہ، اسلحہ اور گولہ بارود کی درآمد اور متعلقہ خریداریاں، سول ورکس شامل ہیں۔ پاکستان کے دفاعی بجٹ میں گزشتہ 5 سالوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، بلکہ سال 2019 میں اس میں 3 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی کمی کی گئی تاکہ قومی اقتصادی ترقی کو سہارا دیا جا سکے۔ان اعدا د و شمار کا موزانہ دنیا کے دیگر ممالک سے کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کم وسائل کے ساتھ بارڈر سکیورٹی، دہشتگردوں کیخلاف آپریشنز اور اندرونی و بیرونی سلامتی کے مشکل ترین چیلنجز سے نبرد آزماہے، اِن سب حقائق سے یہ ثابت ہوتا ہے کے تمام تر مالی، معاشی، سیکیورٹی کے چیلنجز کے باوجود فوج کے دفاعی بجٹ میں مسلسل کٹوتی ہو رہی ہے اور یہ بجٹ دنیا کے کسی ملک کی بڑی فوج کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے۔کاش یہ بات ہمارے ملک میں دفاعی بجٹ کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کو سمجھ آ جائے_

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...