”چند عوام دوست اقدامات“

واقعی سب کو ٹیکس دینا چاہیے اور حکومت کے پاس تمام اعداد و شمار موجود بھی ہیں۔ ”نان فائلرز“ کو حاصل سہولتوں میں کمی اور اُن پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر 45فیصد کرنے کی پالیسی اچھی اُمید بن سکتی ہے اگر ہم زیادہ بہتر طریقے سے عمل کروا سکیں۔ کافی سالوں پہلے متعدد مرتبہ اپنے کالمز میں حکومت کو تجویز دی تھی کہ پہلے سے ٹیکس دہندگان پر مزیدبوجھ ڈالنے کی بجائے ٹیکس دائرے میں تمام طبقات کو شامل کر یں پر ٹیکس شرح قابل ادائیگی سہولت کے دائرہ میں ہو مثلاً ایک شہر میں گلی ۔ چوراہوں میں ہزاروں ”ریڑھیاں “ فروٹ سبزی وغیرہ وغیرہ سے لدی پھندی نظر آتی ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی کمائی روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں میں ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کا ٹرانسپوریشن بل بھی بہت کم ہوتا ہے اور نہ ہی کرایہ مد میں کوئی ادائیگی کرتے ہیں اگر حکومت فی ریڑھی ماہانہ بنیاد پر ”100 ۔200روپے“ بھی ٹیکس کا نفاذ کرد ے تو گنتی کر لیں کہ صرف ایک اِس مد میں ٹیکس کلیکشن کتنی بڑھ جائے گی۔ بجا ”تنخواہ دار“ طبقے پر ٹیکس لگائے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے پر یہ بھی تو سوچئیے کہ صرف یہی واحد طبقہ ہے جس کی تنخواہ ٹیکس کاٹ کر اُس کو دی جاتی ہے اور یہی طبقہ مختلف اقسام کے وفاقی ۔ صوبائی ۔ضلعی ٹیکس واجبات بھی ادا کرتا ہے 76سالوں سے ایک ہی کلاس کو دبانے کی بجائے ریلیف دیں تاکہ سرکاری ملازمین ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کریں۔ تنخواہوں میں ہمیشہ سالانہ بنیاد پر ”100فیصد“ اضافہ لازمی کر لیں ملک سے کرپشن ۔ رشوت از خود ختم ہو جائے گی۔ گنتی کر لیں اِس اضافہ سے ہم پاکستان کے کھربوں روپے رشوت۔ فراڈ ۔ٹیکس چوری ۔ کرپشن کے محفوظ کر سکتے ہیں۔ عام پاکستانی کے علاوہ اہل سیاست ۔ جاگیردار خاندانوں کو بھی ٹیکس نیٹ میںلانے کے اقدامات کریں ۔ غریب ۔ مڈل کلاس تو پابند ہے تمام سرکاری واجبات کی ادائیگی کی۔ اِس کا نفاذ اب اُن ماوراءٹیکس طبقات پر ضرور ہونا چاہیے جن کے جرم کی سزا عوام کو بُھگتنا پڑتی ہے بجلی چوری روک لیں۔ لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ ٹیکس کا نفاذ بلا تفریق ممکن بنا دیں ۔ صرف عام عوام ۔ تنخواہ دار طبقہ مزید پسنے سے بچ جائیگا یوں شفافیت کا ارادہ ۔ عزم بھی تکمیل کو پہنچ پائے گا۔
حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس کی شرح گھٹا دے عام آدمی پراور نفاذ کا دائرہ کار بڑھا دے اگر ہم چاہتے ہیں کہ تمام لوگ ٹیکس نیٹ میں آئیں۔ لائف سٹائل ڈیٹا جائزے کے لیے ٹیم بنانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی ویسے بھی ہر ایسا راستہ مزید ٹیکس چوری کا باعث بنتا ہے اور دوسری طرف رشوت کا گراف نہ صرف اُوپر جاتا ہے بلکہ ریٹ بھی دوگنا ہو جاتا ہے ۔ ہر حکومت نے بیسوں ایسے اقدامات کر کے دیکھ لیں لیکن رزلٹ بالکل برعکس ۔ نتائج وہی جو اُوپر کی سطور میں بیان کر دئیے ہیں ۔ ایک حد تک بات ٹھیک کہ نوکریاں نہیں دینی پر ایسا کریں کہ روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے اندرون ملک غیر ملکی یونیورسٹیز ۔ بڑے صنعتی اداروں کو اپنے تعلیمی کیمپس بنانے اور کاروباری مراکز قائم کرنے پر کام کریں ۔ بے روزگاری اور زرمبادلہ میں اضافہ کے دو بڑے سنگین مسائل حل جاتے ہیں تو بڑی بچت کے ساتھ قرض در قرض کی لت سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ 
”100 فیصد ریلیف“
وزیر اعظم کی عوام کو ”100فیصد ریلیف“ کی خواہش اور عوام کی مشکلات کا احساس۔کوئی شبہ نہیں وزیر مملکت برائے خزانہ کی باتوں پر ۔ ”100فیصد“ نہ سہی ”90-80 “ فیصد ریلیف اب بھی ممکن ہے اور یقینا وزیراعظم اِس پر کام کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں بس عملدرآمد کروادیں ۔ حکومتی اخراجات میں معتدبہ ۔نمایاں ۔ بڑے حجم کی کمی واقعی ممکن ہے صرف ”آپ“ نے فیصلہ کرنا ہے۔ حکم دینا ہے۔ ایک ہی ٹائپ کی وزارتوں میں کمی کا 
سُنا تھا ”8اویں ترمیم“ کے فیصلہ پر عمل کر دیں۔ ”اربوں روپے“ کی بچت ممکن ہے اگر وفاق سطح پر متوازی وزارتوں ۔ اتھارٹیز ۔ ونگز کو ختم کر دیں گے۔
”پٹرولیم لیوی“
”پٹرولیم لیوی“ 80روپے کرنے کا اعلان ۔ بیشک ایک ساتھ نہیں بڑھا رہے پر چاہے بتدریج بڑھے ۔ مہنگائی میں کمی کا عزم ضرور کمزور کر دیگی ۔ آج کی معروضات کا مقصد قابل عمل راہیں نکالنا۔ چکی میں مزید پیسنے کی بجائے تمام لوگوں کو ایک ہی لائن میں کھڑا کرنا کے متعلق ہے پہلے بھی تجویز (بارہا) کیا تھا کہ حکومتی آمدورفت کے قافلوں میں بس تھوڑی سی کمی کر دیں۔ استقبال ۔ استقبالیے بس تھوڑے سے کم کر دیں ۔ ”زوم میٹنگز“ کو ترجیح دیں ۔ وفاق سے لیکر تحصیل لیول تک اِس پر عمل کرلیں تو اِس صورت میں کبھی ”پٹرولیم مصنوعات“ میں ناروا اضافہ کرنے کی نوبت نہیں آنے والی۔ اسی طرح کے چند اقدامات ہماری معیشت میں نئی روح پُھونک سکتے ہیں ۔ عمل ۔ وقت کا تقاضا عوام دوست اقدامات سے معیشت کو نہ مصنوعی طور پر زندہ رکھنے کی نوبت آئے گی اور نہ ہی چھاپے ۔ گھیراو¾ جلاو¿۔ احتجاج۔ مظاہروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چور اور محبت کرنے والے میں فرق کو ضرور ملحوظ رکھیں ۔ وصولی کا نظام عوام دوست بنائیں ۔بجٹ یقینا عوام دوست بن سکتا ہے اگر وقتی ۔ مصنوعی طریقوں ۔ دباو¿ ۔ خوف سے ہٹ کر دیرپا حل کی طرف جائیں۔ 
”سولر سسٹم کی بڑھوتری“
 عوام کو خوفزدہ کرتی خبر کی نفی ہوگئی۔ شکر سولر پینلز کے خام مال کی درآمد میں رعایت کا سُن کر ۔ ”سورج“ کی صورت میں پاکستان کے پاس مکمل مفت بہت بڑی سہولت کا وافر ذخیرہ ہے۔ حوصلہ افزائی کریں گھر سے لیکر چھوٹی دوکانوں حتیٰ ریڑھیوں تک اِس نظام کو پھیلانے کی ۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اندرون ملک سولر پینلز بنانے کے کارخانے قائم کریں۔ سرمایہ کاروں کو خاص سہولتوں (جن میں رودوبدل نہ ہو) کے ساتھ اِس شعبہ میں مراکز بنانے کی طرف قائل کریں۔ حکومت کا موقف بالکل سچا ہے کہ کاروبار کرنا حکومتوں کا کام نہیں ۔ پہلے بھی لکھا تھا پھر سے دہرا رہی ہوں کہ ”بجلی ۔ پانی۔ گیس“ ایسے تمام محکموں کو ختم کردیں جو بھاری خساروں کی شکل میں ملبہ بنے ہوئے ہیں۔ نگرانی کا کام حکومت کا ہے ۔کاروبار کے لیے مقامی سرمایہ کاروں کا آگے لایا جائے ۔ آسان کاروبار ایکٹ ایسا عوام دوست ہو کہ چھوٹا سرمایہ کار بھی آسانی سے کاروبار کر سکے ۔
تمام حکومتی عندیوں کا اظہار اچھا پر زیادہ اچھا ہوگا کہ تاحیات مراعات ختم کر دیں ۔ تمام ”سابقین“ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو مالی طور پر زیر دست ہو۔ جس پر بڑے اہل و عیال کا بوجھ ہو۔ اشیائے ضروریہ کی خریداری میں کِسی ضمن کی مشکلات درپیش ہوں ۔ تمام اصحاب ہر لحاظ سے طاقتور۔ قابل قدر وسائل کے حامل ہیں ۔ یہ ایسا فیصلہ ہے جو آج نہیں تو کل کرنا مجبوری بن جائے گا۔ اپنے وسائل میں رہنا ۔ اپنے وسائل سے کاروبار مملکت چلانا ہے تو پھر آج ہی قوم و ملک کی خدمت کا یہ عظیم تاج حکومت وقت پہن لے ۔ پنشنرز کی پنشن میں کمی یا اُس پر ٹیکس لگانے کی نوبت نہیں آئے گی۔ پنجاب کا ٹیکس فری بجٹ بھی اچھی نوید ہے تنخواہوں ۔ پنشن میں وفاقی و صوبائی لیول پر اضافہ یہ حالات کی ضرورت ہے کیونکہ سب سے زیادہ مشکلات اِسی طبقہ کو برداشت کرنا پڑرہی ہیں۔ صرف چند متذکرہ بالا اقدامات اُٹھا لیتے تو نہ محکموں میں خالی آسامیاں ختم کرنے کی نوبت آتی نہ مزید ٹیکس لگانے کی۔ مگر وقت کی لگام تو ہاتھوں میں ہے مثبت تبدیلیاں کرکے عوام کو ریلیف دیدیں ۔ عوام سے بہت قربانیاں لے لی اب حکومت پہل کرے۔

ای پیپر دی نیشن