جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار تھے اس وقت مجھے پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو دیکھتے اپنے ملک کی خدمت کا موقع ملا، میں اس ذمہ داری میں ناکام ہوا یا کامیاب یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس تجربے سے میں نے یہ چیز حکمرانوں کے سامنے ضرور رکھ دی کہ اگر آپ ہر حال میں عوام کے ساتھ رہیں، عام آدمی سے جڑے رہیں، عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لیے میدان میں رہیں، ایسے تمام کاموں کی براہ راست خود نگرانی کریں جو عام آدمی کی زندگی میں سہولت پیدا کر سکتی ہیں، مجھے بازاروں کے دورے کرنے پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو برا لگتا تھا کہ وزیر اعلیٰ کا ایک مشیر گلیوں میں کیوں پھر رہا ہے، بازاروں کے دورے کیوں کر رہا ہے، بڑے بڑے سٹوروں پر چھاپے کیوں مار رہا ہے، یعنی عوام کی خدمت کا نعرہ لگا کر حکومت میں آنے والے ہی عوامی خدمت کی مخالفت کرنے لگیں تو سمجھ جانا چاہیے کہ مافیا کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں۔ میں نے اس ذمہ داری کو ایسے نبھایا کہ ہو سکتا ہے مجھے دوبارہ موقع نہ ملے لیکن اپنے ملک کے وسائل سے محروم لوگوں کی خدمت کا جو موقع ملا ہے اسے ضائع نہ کرنے کا عہد تھا اللہ کی رحمت سے دل لگا کر کام کیا اور میرا یقین ہے کہ اگر حکمران یہ تہیہ کر لیں کہ عام آدمی کی خدمت کرنی ہے، وسائل میں اضافہ کرنا ہے، مسائل کم کرنے ہیں تو یہ کام ہو سکتا ہے۔ لوگ یہ بھی کہتے تھے "یار چوہدری ایہہ تیرا کم گلیاں اچ پھر ریا ایں" مجھے خوشی ہے کہ گلیوں میں پھر کر دعائیں لیں اور یہ کام ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر بددعائیں لینے سے کہیں بہتر ہے۔
مجھے اس مرتبہ عید الاضحی پر حکومت پنجاب کے کچھ اقدامات سے بہت خوشی ہوئی کہ وہ براہ راست عام آدمی کو فائدہ پہنچانے کی سوچ اپنائے ہوئے ہیں۔
عید الاضحی کے موقع پر پنجاب کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے جس لگن کے ساتھ کام ہوا وہ قابل تعریف ہے، گذشتہ روز بھی اس پر لکھا تھا۔ اس کے علاوہ عید الاضحی کے موقع پر بیرون شہر جانے یا آنے والے مسافروں کو ٹرانسپورٹرز کے ظلم سے بچانے کے لیے بھی کیے گئے اقدامات قابل تعریف ہیں۔ اسے فوری ریلیف بھی کہا جا سکتا ہے۔ یعنی بسوں میں ٹکٹیں چیک کر کے اوور چارجنگ کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کر کے مسافروں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو موقع پر ہی سزا دے دے گئی۔ بھلے ہر مسافر کو ایک سو، ڈیڑھ سو یا دو سو روپے کہ بچت ہوئی یا اس سے کچھ زیادہ یا کچھ کم پیسوں کا فائدہ ہوا لیکن اس مشق سے یہ تو ظاہر ہوا کہ حکومت ہر جگہ سے اپنے شہریوں کو سہولت دینا چاہتی ہے۔ پنجاب کے مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ٹرانسپورٹ کرایوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔ مختلف شہروں میں ڈپٹی کمشنرز نے بسوں پر چھاپے مارے اور مسافروں سے کرایوں کے بارے میں دریافت کیا۔ من مانے کرائے وصول کرنے والوں پر جرمانے وصول کئے گئے زائد کرایہ مسافروں کو واپس دلایا گیا۔
یہ وہی کام ہے جو میں پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی سربراہی کرتے ہوئے کیا کرتا تھا۔ حکومت نے شعبہ ٹرانسپورٹ کا منتخب کیا لیکن کام پرائس کنٹرول ہی تھا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر خالصتا عام آدمی کی فلاح و بہبود کا مقصد لے کر میدان میں اترا جائے تو ہر کام ہو سکتا ہے۔ صوبے بھر کی انتظامیہ کو اگر سارا سال عیدالاضحٰی کی طرح متحرک کیا جائے تو مصنوعی مہنگائی پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے، ناجائز منافع خوروں کو بھی قابو کیا جا سکتا ہے، اشیاء خوردونوش کی بلا تعطل فراہمی، ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کو بھی بہتر کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے بہت سے مسائل بدانتظامی اور حکومتوں کی عدم توجہ سے پھیلے ہوئے ہیں۔ پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے موجودہ حالات میں بہت اچھا کام کیا ہے۔ بنیادی طور پر تو وہ مریم نواز کی حکومت کا چہرہ ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ حکومت کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے مختلف منصوبوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔
اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر پنجاب حکومت نے کچھ ایسے اقدامات ضرور کیے ہیں جنہیں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف، سینئر وزیر مریم اورنگزیب اور وزیر اطلاعات عظمی بخاری بہت سوچ سمجھ کر، بہتر حکمت عملی کے ساتھ عام آدمی کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کام کر رہی ہیں ۔ مریم نواز شریف وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے لیڈ تو کر رہی ہیں لیکن میاں نواز شریف کا تجربہ ان کے لیے کام آسان کر رہا ہے۔ یاد رکھیں اگر پنجاب میں کارکردگی کا معیار بلند ہوا اور لوگوں کی زندگی میں سہولت پیدا ہوئی تو مسلم لیگ ن کو سیاسی طور پر اس کا بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ جہاں تک عید الاضحی کے تینوں روز گلیوں، محلوں، شہروں دیہاتوں میں ہر جگہ صفائی کو یقینی بنایا گیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اچھے انداز میں ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے لوگوں کو جگایا ہے اور یہ احساس دلایا ہے کہ اگر کام کرنا چاہیں تو ہو سکتا ہے۔ ورنہ ماضی میں تو لاہور میں جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر ہمارا منہ چڑاتے تھے۔ اب گلیاں، محلے، سڑکیں صاف ہیں تو یہ سلسلہ برقرار رہنا چاہیے۔ صفائی کو ہر سطح پر یقینی بنایا جائے۔ ویسے انتظامی معاملات میں سینئر وزیر مریم اورنگزیب بھی خود کو ایک کامیاب وزیر کے طور پر منوانے میں کامیاب ہوئی ہیں ۔ پنجاب کی حکومت پر خیبرپختونخوا کی طرف سے بھی تنقید ہوتی رہتی ہے چونکہ میاں شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں تو وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور ایک تیر سے زیادہ نشانے لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں جواب دیتے ہوئے وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کہتی ہیں کہ "علی امین گنڈا پور پہلے اپنے صوبے کا کوڑا تو اٹھا لیں، پنجاب آئیں آپ کو بتاتے ہیں صفائی اور سیکیورٹی کا نظام کیسے چلاتے ہیں؟ یہ لوگ عید پر بھی نفرت پھیلانے سے باز نہیں آتے۔ عید کے روز بھی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کام کرتی رہیںہیں، شہبازشریف کے دور میں پنجاب کی جیسے صفائی تھی ویسے ہی کر رہے ہیں، پنجاب بھر میں آلائشیں اٹھانے کا کام صوبے کو صاف ستھرا رکھنے اور عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ ہمارا فرض ہے۔ ہم نے پہلی دفعہ بتیس لاکھ ماحول دوست بیگز گھروں میں پہنچائے، پنجاب اور لاہور کی سڑکیں فینائل اورعرق گلاب سے دھویا۔
1139 ہیلپ لائن سے تمام چیزوں کو مانیٹر کیا گیا، سیف سٹی کے کیمروں کے ذریعے پہلی دفعہ صفائی کی مانیٹرنگ ہوئی، ویسٹ منیجمنٹ عملے کو عید کے دن کھانا اور عیدی بھی دی گئی۔ علی امین گنڈا پور پہلے کوڑا تو اٹھا لیں، دھمکی کسی اور کو دیں، یہ لاہور آجائیں ہم بتائیں گے کہ کوڑا کیسے اٹھاتے ہیں۔"
پنجاب حکومت نے گذشتہ چند روز میں جو اقدامات کیے ہیں انہیں دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ اگر خالصتا عوامی فلاح مقصود ہو اور انتظامیہ کو متحرک رکھنے اور دستیاب افرادی قوت سے کام لینے کا فن آتا ہو تو بہت سے مصنوعی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ کاش وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور ان کی ٹیم آنے والے دنوں اسی منصوبہ بندی، فکر، لگن اور جوش و جذبے کے ساتھ کام کرے۔ یہ ناصرف ملک کی خدمت ہو گی بلکہ مسلم لیگ ن کو سیاسی طور پر بھی اس کا فائدہ ہو گا۔
آخر میں امجد اسلام امجد کا کلام
زندگی کے میلے میں
خواہشوں کے ریلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں
اِس قدر جھمیلے میں
وقت کی روانی ہے
بخت کی گرانی ہے
سخت بے زمینی ہے
سخت لامکانی ہے
ہجر کے سمندر میں
تخت اور تختے کی
ایک ہی کہانی ہے
تم کو جو سْنانی ہے
بات گو ذرا سی ہے
بات عمر بھر کی ہے
عمر بھی کی باتیں کب
دو گھڑی میں ہوتی ہیں
دَرد کے سمندر میں
اَن گِنت جزیرے ہیں
بے شمار موتی ہیں
آنکھ کے دریچے میں
تم نے جو سجانا تھا
بات اْس دئیے کی ہے
بات اس گلے کی ہے
جو لہو کی خلوت میں
چور بن کے آتا ہے
لفظ کی فصیلوں پر
ٹْوٹ ٹْوٹ جاتا ہے
زندگی سے لمبی ہے
بات رتجگے کی ہے
راستے میں کیسے ہو؟
بات تخلیے کی ہے
تخلیے کی باتوں میں
گفتگو اِضافی ہے
پیار کرنے والوں کو
اِک نگاہ کافی ہے
ہو سکے تو سْن جاؤ
ایک دِن اکیلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں
اس قدر جھمیلے میں