عید پر ایک خبر اور ویڈیو کا بڑا چرچا رہا۔ سانگھڑ میں کسی وڈیرے نے ایک اونٹنی کی ٹانگ کلہاڑی کے وار کر کے کاٹ دی اور مار مار کر چہرے کا حلیہ بھی بگاڑ دیا۔ روتی چیختی بلکتی اونٹنی کی ویڈیو وائرل ہو گئی اور ملک بھر سے اس وڈیرے کی ملامت کی گئی۔ اگلے ہی روز پنجاب کے ایک ’’منی‘‘ وڈیرے نے اپنے کھیتوں میں گھس آنے والی گدھی کے کان آری سے کاٹ دئیے۔ (منی اس لئے کہ میگا سائز وڈیرے اب پنجاب میں نہیں ہوتے، شہری آبادی اور صنعت کاری بڑھ گئی ہے)۔ اس سے دو تین ہفتے پہلے ایک زمیندار کے ٹیوب ویل سے کسی بکری نے پانی پی لیا۔ وڈیرے نے لاٹھیاں مار مار کر اسے ہلاک کر دیا۔
کوئی اس وڈیرے کی ٹانگ کاٹ دیتا، کوئی اس منی وڈیرے کے کان کتر دیتا اور کوئی اس زمیندار کو لاٹھیاں مار مار کر ہلاک کر دیتا تو انصاف ہو جاتا۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ جانور کے احساسات اور جاں بالکل ویسی ہی ہے جیسے انسان کی۔ یہ بات شواہد سے بھی ثابت ہے اور قرآن پاک کی سورۃ الانعام میں بھی لکھی ہوئی ہے لیکن ہم پاکستانیوں کے نزدیک جانور بے روح مخلوق ہوتے ہیں۔ یہ غلط تصور علمائے کرام نے اپنی طرف سے دیا۔ بہت عرصہ پہلے میں نے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی تقریر سنی ، درس قرآن میں فرما رہے تھے کہ جانور میں روح نہیں ہوتی۔ انہیں قرآن پاک کا مطالعہ کر لینا چاہیے تھا۔ جس میں لکھا ہے کہ جانوروں کی ہر نوع بالکل انسانوں کی طرح ایک امت ہے، ہر ایک کا سارا ماجرا اللہ نے اپنے رجسٹر پر لکھ دیا ہے اور ہر ایک انسانوں کی طرح اللہ کی تسبیح کرتا ہے ایسی تسبیح جو انسان نہیں سمجھ سکتا اور یہ کہ قیامت کے روز یہ بھی اٹھائے جائیں گے۔ ان کا بھی نشور ہو گا۔
جانور خدا کی سب سے خوبصورت اور معصوم مخلوق ہے لیکن ، ان کی بدقسمتی یا خدا کانظام جسے ہم سمجھ نہیں سکتے، وہ سب سے بدصورت مخلوق، اسفل السافلین کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ یہ بے بس مخلوق جنگلوں میں بھی محفوظ نہیں، اسفل السافلین اسے اس کے گھر یعنی جنگل میں گھس کے مارتا ہے۔
گلی محلوں میں گھومنے والے کتے اور بلّیاں ہمارے پھینکے گئے ناکارہ رزق پر پلتے ہیں اور ہم انہیں بھی مار دیتے ہیں۔ جانور سے پیار کرو تو وہ انسانوں سے بڑھ کر جوابی پیار کرتا ہے۔ یہ سطریں لکھنے سے محض آدھ گھنٹہ پہلے میں نے ٹویٹر پر ایک کلپ دیکھا۔ کسی کو بازار میں گرا ہوا ایک زخمی طوطا ملا۔ پاکستانی ہوتا تو اسے وہیں مسل کر ختم کر دیتا جیسے کچھ مہینے پہلے کراچی کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ ایک چیل کسی کا پتھر یا چھرا لگنے سے زخمی ہو کر ایک گلی میں گر پڑی۔ لوگ آئے، کسی نے ٹھڈا ماراکسی نے کچوکا دیا۔ آخر ایک شیر مردآیا، اس نے زخمی چیل کو پر سے پکڑا اور گھما کر دیوار سے دے مارا۔ دو تین بار مارا تو چیل کا قصّہ پاک ہو گیا۔ محلے داروں نے داد دی اور اپنی اپنی راہ لی۔ لیکن یہ گورا تھا۔ اس نے طوطے کو اٹھایا، گھر لا کر اس کے زخم دیکھے، مرہم پٹی کی، پا?ں کو ٹکور کیا، پروں کے اعصاب حرکت میں لانے کیلئے فزیو تھراپی کی، کھانے کو دیا، پینے کو دیا۔ طوطا چار پانچ روز میں اچھا ہو گیا اور اڑان بھر کر اپنے ٹھکانے کی طرف چلا گیا۔ قصّہ ختم۔ نہیں، قصّہ ختم نہیں ہوا۔ اگلے روز وہ صاحب شور سن کر اٹھے تو دیکھا کہ سینکڑوں طوطوں کا جھنڈ اس کے گھر میں درختوں، منڈیروں، لان میں اور رسیوں پر ، تاروں پر بیٹھا ہے اور غل مچا رکھا ہے۔ سب سے آگے اس کی کھڑکی پر وہی زخمی طوطا بیٹھا ان کی قیادت کر رہا تھا۔ پھر وہ سب اڑ گئے۔ یہ سارا جھنڈ اس کا شکریہ ادا کرنے آیا تھا۔ خدا جانے طوطے نے کس زبان میں اپنے جھنڈ کو اس گورے صاحب کی مہربانی کا بتایا ہو گا۔ قرآن پاک کی اس بات کی تصدیق اب جا کر اس زمانے میں ہوئی ہے کہ جانوروں کی ہر نوع اپنی زبان بولتی ہے۔
بالکل اسی طرح کی ایک ویڈیو گزشتہ برس دیکھی تھی۔ ایک ہرنی کسی باڑ میں پھنس گئی تھی۔ اس کا بچہ بے تابی سے سڑک پر آ جا رہا تھا، ہر گاڑی کے سامنے رک جاتا تھا لیکن کسی کو پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ہرن کا بچہ یہ حرکتیں کیوں کر رہا ہے۔ ایک صاحب نے البتہ معاملے کا سراغ لگانے کا فیصلہ کیا۔ وہ گاڑی سے اترے تو ہرن کا بچہ انیں دیکھتے ہوئے ایک طرف چل پڑا۔ صاحب بھی اس کے پیچھے گئے، کچھ فاصلے پر دیکھا کہ سڑک سے ہٹ کر ایک نجی اراضی پر لگی باڑ میں اس کی ماں پھنسی ہوئی ہے۔ ان صاحب نے اسے نکال دیا۔ اور واپس گاڑی کی طرف لوٹ آئے، ابھی گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ دیکھا، ہرن کا بچہ پھر گاڑی کے سامنے آ گیا۔ اب کیا ہو گیا؟۔ صاحب نے سوچا۔ اتنی دیر میں بچے نے اگلے دو پا?ں رکوع کے انداز میں زمین پر رکھے اوردو تین بار سر کو سلام کرنے کے انداز میں جھکایا اور پھر لوٹ گیا۔ صاحب یہ دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے۔ لیکن یہ قصّہ بھی ابھی ختم نہیں ہوا۔ ان صاحب کا گھر قریب ہی تھا اور ہرنی اور اس کے بچے نے دیکھ لیا تھا۔ اگلے دن اڑھائی تین درجن ہرن ان صاحب کے مکان میں موجود تھے۔ کچھ دیر تشکر آمیز نظروں سے دیکھنے کے بعد ، یعنی شکریہ ادا کرنے کے بعد وہ چلے گئے۔
ایک اونٹنی کا مالک اسے بہت پیار کرتا تھا۔ پھر وہ کسی کام سے کہیں اور چلا گیا۔ اونٹنی کو کیسے بتاتا کہ میں جا رہا ہوں۔ چند دن وہ باہر رہا اور اونٹنی اس دوران بے تاب اور بے چین رہی، کھانا پینا بھی کم کر دیا۔ وہ مالک لوٹا تو اونٹنی پہلے تو بے یقینی سے دیکھتی رہی، پھر بے تابانہ آ کر اس سے لپٹ گئی، گردن اس کے کندھے پر رکھ دی اور آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے۔
بھارت میں ایک ظالم انسان نے چالیس سال تک ایک ہاتھی کو زنجیر سے جکڑے رکھا۔ وہ اس سے بھیک منگواتا تھا۔ ریسکیو والے اسے چھڑانے آئے اور مالک سے ان کی بحث ہو گئی۔ ہاتھی کے پا?ں زخمی ہو کر گلنے سڑنے کے قریب تھے۔ پتہ نہیں اس ہاتھی کو کیسے پتہ چل گیا کہ یہ آنے والے اس کے ہمدرد ہیں۔ وہ اس بری طرح رویا کہ ریسکیو والے بھی رونے لگے۔ مالک کو پیسے دئیے اور ہاتھی کو لے جا کر علاج کرایا اور سینکچری میں چھوڑ دیا۔ وہ ہاتھی اب خوش ہے، ریسکیو والے جائیں تو دوڑا چلا آتا ہے۔