ذیشان کلیم معصومی
اللہ کے محبوب نبی کریم ؐسلام کی ابتداء السلام علیکم ورحمتہ اللہ کے کلمات سے فرماتے اور سلام کرنے والے کو جواب میں وعلیکم السلام کہتے تھے لفظ السلام علیکم (تم پر سلامتی ہو) اور وعلیکم السلام (اور آپ پر بھی سلامتی ہو )دونوں دعائیہ کلمات ہیں جو کہ مسلمان ملاقات کے وقت ایک دوسرے کے لئے استعمال کرتے ہیں گویا مسلمان ایک دوسرے سے ملتے ہی ایک دوسرے کو دعا دیتے ہیں سلام میں پہل کرنا سنت رسول کریم ؐ ہے ۔نبی پاک ؐ نے فرمایا کہ بہترین اسلام یہ ہے کہ تم کھانا کھلائو چاہے جاننے والا ہو یا نہ جاننے والا۔سب کو سلام کرو اللہ نے جب حضرت آدمؑ کو پیدا کیا تو ان سے فرمایا کہ ان فرشتوں کے پاس جائو اورانھیں سلام کرو اور سنو کہ وہ تمہیں کیا جواب دیتے ہیں کیونکہ وہی تمہاری اولاد کے سلام کا جواب ہو گا ۔چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام نے السلام علیکم کہا فرشتوں نے جواب میں وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ کہا سلام کو عام کرنے سے مخلوق خدا میںآپس میں محبت پیدا ہوتی ہے حضرت عمار کا قول ہے کہ تین باتیں جس نے مجھے کر لیں اس نے ایمان کو حاصل کر لیا اول اپنے آپ سے انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اللہ اور اس کے بندوں کے تمام حقو ق ادا کرے اور لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ کرے جیسے اپنے ساتھ پسند کرے اس میں اپنی ذات کے ساتھ انصاف کی باتیں بھی شامل ہیں مطلب یہ کہ نفس کو نافرمانی سے پلید نہیں کرنا چاہیے اور نہ ایسا دعویٰ کرنا چاہیے کہ جو صفات اس میں موجود نہ ہو ۔سلام کا مطلب تواضع و انکساری ہے ایسا آدمی کسی کے سامنے تکبر نہیں کرتا ۔حضور اکرمؐ جب بچوں کے پاس سے گزرتے تو سلام کرتے ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ عورتوں کی جماعت کے پاس سے گزرے تو آپ ؐ نے انھیں ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا صحابہ کرام ؓ بھی جب جمعہ کی نماز کے بعد ایک بڑھیا کے پاس سے گزرتے تو آپ انھیں سلام کرتے تھے اور وہ انھیں کچھ کھانا وغیرہ پیش کرتیں تھیں علماء کرام نے کہاکہ شریعت میں ہے کہ بوڑھی عورتوں اور محرم عورتوں کو سلام کرنا صحیح ہے اس کے علاوہ شریعت میں سلام کرنے کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ چلنے والا بیٹھے ہوئے کو ،سوار پیدل چلنے والے کو،تھوڑے افراد زیادہ کو اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے جبکہ سرکار ؐ نے فرمایا کہ دو چلنے والوں میں سے جو پہل کرے وہ افضل ہے ایک حدیث میں ہے کہ جو سلام میں پہل کرے وہ اللہ کے ہاں تمام لوگوں سے بہتر ہے ۔ آپ سے یہ بھی روایت ہے کہ تم میں سے کوئی اپنے رفیق سے سلام کرے اگر دونوں کے درمیان درخت یا دیوار حائل ہو جائے تو پھر سامنا ہو تو پھر سلام کرے اسی حدیث سے سلام کی تاکید ثابت ہوتی ہے۔ نبی کریمؐ جب رات کو اپنے گھر میں داخل ہوتے تو اس طرح سلام کرتے کہ جاگنے والا سن لے اور جو سویا ہوا ہو وہ نہ جاگے ایک روایت میں ہے کہ سلام سے قبل ہی سلام کیا جائے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ سوال سے قبل ہی سلام ہونا چاہیے اس لئے کہ جواب سلام سے قبل سوال کرے اس کا جواب نہ دو آپ سے بھی منقول ہے کہ اس شخص کو اجازت نہ دو جو سلام سے ابتداء نہ کرے۔ جب آپ ؐکسی دروازے پر تشریف لے جاتے تھے تو دروازے کے بالمقابل کھڑے نہ ہوتے تھے بلکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے تھے اور السلام علیکم کہتے تھے آپ ؐ دوسروں کو بھی سلام پہنچاتے تھے جیسا کہ اللہ کی طرف سے سیدہ حضرت خدیجہؓ کو سلام پہنچایا تھا اور ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا کہ جبرئیل تمہیں سلام کہتے ہیں۔ جب لوگ زیادہ ہوتے اور ایک بار میں سلام نہیں پہنچ پاتا تو تین بارتک سلام کہتے تھے جب آپ کو خیال ہوتا کہ پہلی اور دوسری بار نہیں سنا تو تو سہ بار سلام کرتے تھے ۔ حضور پاک ؐ یہودیوں اور عیسائیوں کو سلام کرنے میں پہل نہ فرماتے تھے آپؐ کا فرمان ہے کہ ان کیلئے سلام میں پہل نہ کرو اگر انھیں کسی راستے میں ملو تو ان کو تنگ راہ پر جانے میں مجبور کر دو۔اللہ پاک ہمیں کریم آقا کی سنتوں پر عمل کا عادی بنا دے آمین