اسلام کی ترویج و ترقی میں خواتین کا کردار

Jun 21, 2024

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
اللہ رب العزت نے نبوت کی ابتداء سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی اور اس کی انتہا محمد عربی ؐکی ذات اقدس پر فرمائی۔  آپ ؐ آخر الانبیاء ہیں، آپؐ کے بعد کسی کو نبی نہ بنایا جائے گا۔ اس عقیدہ کو شریعت کی اصطلاح میں ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ کہا جاتا ہے۔ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کیے گئے ہیں آپ ؐخاتم النبیین ہیں ٭قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ٭رحمت عالم ؐ کی احادیث متواترہ (دو سودس احادیث مبارکہ)سے یہ مسئلہ ثابت ہے، ختم نبوت اسلام کے ان بنیادی اور اساسی عقائد میں سے ہے جن پر اسلام کی مضبوط اور مرتفع عمارت استوار ہے۔
 عقیدہ ختم نبوت نے پوری امت مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں پرویا ہوا ہے،رب کائنات کی طرف سے جب تمام زمین و زماں،مکین و مکاں اور سارا جہاں آنحضرت ؐ کی نبوت عامہ کے تحت ہے اور قیامت تک کسی نئے نبی کی آمد اور بعثت کا تصور موجود نہیں تو نبی اور وحی ایک ہونے کی وجہ سے امت متحد اور متفق نظر آتی ہے،سلامی عقائدمیں ایک اہم اوربنیادی عقیدہ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ہے،جس کا حاصل یہ ہے کہ جن وانس کی رشدوہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کاعظیم الشان سلسلہ جاری فرمایا، اس سلسلہ کو سیدالمرسلین خاتم النّبیین حضرت محمدؐ کی ذات اقدس پر مکمل فرمایا،اب قیامت تک کسی کونبی بنایانہیں جائے گا،اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میں جس طرح شرکت ممکن نہیں،اسی طرح حضر ت محمدرسول اللہؐکی ختم نبوت میں بھی شرکت ممکن نہیں،جس طرح نبی صادق کو نہ ماننااوران کی تکذیب کرنا کفرہے،اسی طرح جھوٹے مدعیِ نبوت کوماننااوراس کی تصدیق کرنا بھی کفرہے۔
نبی کریم ؐ جس طرح مردوں میں اجتماعات کا اہتمام فرمایا کرتے تھے اسی طرح مدینہ منورہ میں بسا اوقات بطور خاص خواتین کے بیانات کا اہتمام بھی فرماتے تھے۔ حضور اکرم ؐ بیان فرماتے تو خواتین جمع ہو تیں ان کے بیان کو سماعت کرتیں اور حضرت بلالؓ کے ذمہ تھا کہ جب حضور ؐ کے بیان کے بعد نبی کریم ؐ بعض ضروریات کے لیے خواتین سے مطالبہ فرماتے تو حضرت بلالؓ ان اموال کو جمع فرمایا کرتے تھے۔تو مردوں کے لیے اہتمام کرنا اور خواتین کے لیے الگ اہتمام کرنا یہ دونوں نبی ؐ کی مبارک سنت سے ثابت ہے بلکہ بعض مقامات میں خواتین کی خواہش کی وجہ سے قرآن کریم کی بعض آیات خالصتاً خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے نازل فرمائی ہیں۔ صرف رسول اکرمؐکی ازواج مطہرات امہات المومنین ؓ کو خطاب فرمایا،کسی مقام میں ایمان والی عورتوں کو خطاب فرمایا اور کسی جگہ پر مرد اور عورت دونوں کا تذکرہ کر کے ایسے الفاظ استعمال فرمائے کہ جس سے پتہ چلے کہ مرد اور عورت دونوں کو شریعت مخاطب کر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں انسان کے زندہ رہنے اور دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے جس طرح مردوں کا بڑا کردار ہے خواتین کا بھی بڑا کردار ہے۔حضور نبی اکرمؐنے ہجرت کی غرض سے غار ثور میں پناہ لی تو حضرت اسماءؓجو کہ اس وقت کم سنی کی عمر میں تھیں کو اپنا راز دار بنایا۔ آپ قریش مکہ کی نظروں سے چھپ کر غار ثور میں حضورؐ کو کھانا پہنچایا کرتی تھیں۔ ابوجہل کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے آپ کو زدو کوب کرکے حضور نبی اکرم ؐکا پتہ معلوم کرنے کی کوشش کی تو آپ نے بتانے سے صاف انکار کردیا۔
حضرت صفیہؓ  نہایت بہادر اور نڈر خاتون تھیں، آپ دوران جنگ بے خوف و خطر ہوکر زخمیوں کو میدان جنگ سے باہر لاتیں اور ان کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔رسول اللہ ؐکی پھوپھی حضرت صفیہ نے غزوہ خندق میں نہایت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جب دوران جنگ ایک یہودی مسلمان خواتین پر حملہ آور ہوا توآپ نے اس پر ایسا کاری وار کیا کہ اس کا سر کاٹ کر دشمن فوج میں پھینک دیا اس کے بعد دشمن فوج میں کسی سپاہی کی اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ مسلمان خواتین پر حملہ کرتا۔ سیدہ ام عمارہ ؓ ایک مشہور صحابیہ ہیں، قبل از ہجرت جب مقام عقبہ پر مدینہ کے نیک لوگوں نے کفار قریش سے چھپ کر اسلام کی اشاعت اور رسول اللہ  کی امداد کیلئے رسول اللہ کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی،تو اس مختصر سی جماعت میں سیدہ ام عمارہؓ بھی شریک تھیں؛ اسی طرح جنگ احد میں عین اس وقت جب مسلمانوں کے قدم اکھڑرہے تھے اور نبی کریم ؐ پر کفار بڑھ بڑھ کر حملے کررہے تھے اور جان نثار آگے آکر آکر اپنی جانیں قربان کر رہے تھے یہ بہادر خاتون بھی تیغ بدست حملہ آووروں کو مار مار کر پیچھے ہٹا رہی تھیں اس دن کئی زخم ان کے دست وبازو میں آئے تھے۔دیگر غزوات میں بھی ان سے بے مثال بہادری کے کارنامے ظہور میں آئے۔ حضرت صدیق اکبر ؓکے زمانے میں جنگِ یمامہ میں بھی انھوں نے بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا اوراپنے ہاتھ کے بری طرح زخمی ہو جانے تک لڑتی رہیں (فتوحات اسلام،سید دحلان ص42) 
سن 6 ہجری میں جب رسول اللہ ؐ نے حج کے اردہ سے مکہ مکرمہ کاارادہ کیا،اور تحقیق حال کے لیے حضرت عثمان ؓکو مکہ بھیجا ان کے بارے میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمان ؓکو قریش نے شہید کردیا ہے،اس وقت رسول اللہ ؐ نے تقریبا تمام صحابہؓسے کفار قریش سے لڑنے مرنے پر بیعت لی،جو اسلامی تاریخ میں ’’بیعتِ رضوان‘‘سے مشہور ہے، موت پر بیعت کرنے والیوں میں حضرت ام عمارہؓ  بھی شامل تھیں۔ ام زیاد اشجعیہ  اور دوسری پانچ عورتوں نے غزوہ خیبر میں چرخہ کات کر مسلمانوں کی مدد کی وہ میدان سے تیر اٹھاکر لاتی تھیں اور سپاہیوں کو ستو پلاتی تھیں (مسلم ج2ص 105)ام عطیہ ؓ نے سات غزوات میں صحابہ کرامؓ کے لیے کھانا پکایا (طبری ج2،2316) حضرت فاروق اعظم ؓکے زمانے میں جنگِ قادسیہ اسلام اورکفرکے درمیان ہونے والا زبردست اور فیصلہ کن معرکہ تھا۔اس جنگ میں عرب کی مشہور شاعرہ حضرت خنساء￿ؓ  بھی شریک تھیں۔ حضرت خنساءؓ کے ساتھ ان کے چاروں بیٹے بھی شریک تھے، شب کے ابتدائی حصہ میں جب ہر سپاہی صبح کے ہولناک منظر پر غور کررہا تھاآتش بیان شاعرہ نے اپنے بیٹوں کو یوں جوش دلا نا شروع کیا(ترجمہ اشعار)پیارے بیٹو! تم اپنی خواہش سے مسلمان ہوئے اور تم نے ہجرت بھی کی خدائے وحدہ لاشریک لہ کی قسم جس طرح تم ایک ماں کے بیٹے ہو۔ ایک باپ کے بیٹے بھی ہو۔ میں نے تمہارے باپ سے خیانت نہیں کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا اور نہ تمہارے حسب ونسب میں داغ لگایا۔جو ثواب عظیم اللہ تعالیٰ نے کافروں سے لڑنے میں مسلمانوں کے لیے رکھا ہے۔تم اس کو خود جانتے ہو خوب سمجھ لو کہ آخرت جو ہمیشہ رہنے والی ہے اس دار فانی سے بہتر ہے۔اللہ فرماتا ہے: مسلمانوں صبرکرو اور استقلال سے کام لواور اللہ سے ڈرتے رہو؛تاکہ تم کامیاب ہوسکو (آل عمران)کل جب خیریت سے صبح کرو ان شاء  اللہ تو تجربہ کاری کے ساتھ اللہ سے مدد مانگتے ہوئے تم دشمن پر جھپٹ پڑنا اور جب دیکھنا کہ لڑائی زوروں پر ہے تو خا ص طور پر تم جنگ کی بھٹی کی طرف رخ کرنا اور جب دیکھنا کہ فوج غصہ سے آگ ہورہی ہے تو غنیم کے سپہ سالاروں پر ٹوٹ پڑنا۔ اللہ کرے کہ تم دنیا میں مال غنیمت اور عقبی میں عزت پاؤ(اسد الغابہ)صبح کو جنگ چھڑتے ہی سیدہ خنساء ؓکے چاروں بیٹے یک بار گی دشمنوں پر جھپٹ پڑے اور آخر کار بڑی بہادری سے چاروں لڑکر شہید ہوگئے۔ سیدہ خنساءؓ کو جب یہ خبر پہنچی تو انھوں نے کہا: اس اللہ کا شکر ہے جس نے بیٹوں کی شہادت کا مجھے شرف بخشا۔بلاشبہ عقیدہ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کے لیے جو مرد و زن بھی کوشش کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کا اجر ضائع نہیں کریں گے۔ حضرت ام شریک ؓ ایک صحابیہ تھیں،جو آغاز اسلام میں خفیہ طور پر قریش مکہ کی عورتوں میں دعوت وتبلیغ کا کام کرتی تھیں قریش کو ان کی خفیہ دعوتی سر گرمیوں کا علم ہوا تو انھیں کفار نے مکہ سے نکال دیا (اسد الغابہ) ایک موقع پر حضرت عمرؓ نے چادر تقسیم فرمائی ایک چادر بچ گئی کسی نے کہا اپنی بیوی کو دے دیں کہنے لگے ام سلیطؓ اس کی زیادہ مستحق ہیں کیونکہ وہ غزوہ احد میں مشک بھر بھر کر پانی لاتی تھیں اور ہمیں پلاتی تھیں (بخاری کتاب الجہاد،باب حمل النساء القرب الی الناس)

مزیدخبریں