حافظ فضل الرحیم اشرفی
رسول اللہؐ کی حیات طیبہ میں فقرو فاقہ کے دور بھی نظر آتے ہیں اور سیر ہو کر کھانے کا تذکرہ بھی احادیث میں موجود ہے۔ روایات میں یہ بھی موجود ہے کہ بسا اوقات کئی ماہ تک چولہا نہیں جلتا تھا اور دوسری طرف بھنا ہوا گوشت تناول فرمانے کی روایات بھی ملتی ہیں۔
دستر خوان نبوی ؐپر نظر ڈالیں تو سادگی اور کفایت شعاری سے بھرپور نظر آتا ہے اور تکلفات سے بہت دور۔’’حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ کی خدمت میں کہیں سے گوشت آیا، اس میں سے دست (بونگ) آپ کی خدمت میں پیش ہوئی اور بونگ کا گوشت آپ ؐکو پسند بھی تھا رسول اللہؐ نے دانتوں سے کاٹ کر تناول فرمایا۔‘‘(رواہ الترمذی)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ’’سرکہ بھی کیسا اچھا سالن ہے‘‘ ایک روایت میں فرمایا کہ سرکہ پہلے انبیاء کا بھی سالن رہا ہے، جس گھر میں سرکہ ہو وہ محتاج نہیں (یعنی سالن کی ضرورت نہیں رہتی) حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہؐ کو مرغی کا گوشت تناول فرماتے دیکھا ہے۔ سفینہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کے ساتھ حباری کا گوشت کھایا۔‘‘
(حباری ایک پرندہ ہے جسے فارسی میں ہوبرہ اور شوات کہتے ہیں۔ ترکی میں توغدری، ہندی میں چرز، یونانی میں غلوفس کہتے ہیں۔ اس کا رنگ خاکی‘ گردن بڑی اور پاؤں لمبے، چونچ بھی تھوڑی سی لمبی، جسم میں کونج اور مرغابی کے درمیان ہوتا ہے)
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے رسول اللہؐ کی دعوت کی‘ میں بھی آپ ؐ کے ساتھ تھا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو کی روٹی اور کدو گوشت کا شوربا پیش کیا۔ میں نے رسول اللہ ؐ کو دیکھا کہ پیالہ میں ہر طرف سے کدو کے ٹکڑے تلاش فرما کر تناول فرما رہے ہیں اس وقت سے کدو مجھے بھی مرغوب ہو گیا‘‘ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ کو میٹھا اور شہد پسند تھا۔ ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ انہوں نے پہلو کابھنا ہوا گوشت رسول اللہؐ کی خدمت میں پیش کیا آپ نے تناول فرمایا۔
مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک رات رسول اللہ ؐ کے ساتھ مہمان ہوا کھانے میں بھنا ہوا پہلو لایا گیا آپؐ چھری لے کر اس میں سے کاٹ کاٹ کر مجھے مرحمت فرما رہے تھے۔ اسی دوران حضرت بلالؓ نے نماز کی تیاری کی اطلاع دی آپ ؐ نے فرمایا کیا ہوا اس کو کہ ایسے موقع پر خبر دی اور پھر چھری رکھ کر نماز کے لیے تشریف لے گئے۔‘‘
اس روایت میں چھری سے گوشت کاٹ کر کھلانے کا تذکرہ ہے جبکہ ابوداؤد اور بیہقی کی روایات میں چاقو، چھری سے، پکا ہوا گوشت کاٹنے کی ممانعت بھی آئی ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب ’’خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ان دونوں حدیثوں کے درمیان مطابقت اس طرح ہے کہ ممانعت چاقو یا چھری سے کھانے کی ہے اور مغیرہ بن شعبہ ؓ کی روایت میں چاقو سے کاٹ کر دوسرے کو پیش کرنے کا ذکر ہے۔ لہٰذا اگر گوشت ذرا سخت ہو تو چاقو سے کاٹ کر ہاتھ سے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں ہے کہ بونگ کا گوشت رسول اللہ ؐنے دانتوں سے کاٹ کر تناول فرمایا۔
حضرت سلمیٰ ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت حسن ؓ اور عبداللہ بن عباس ؓاور عبداللہ بن جعفر ؓ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ رسول اللہؐکو جو کھانا پسند تھا اور آپ رغبت سے کھاتے تھے وہ پکا کر کھلائیں۔ حضرت سلمیٰ ؓنے کہا پیارے بچو اب وہ تمہیں کھانا پسند نہیں آئے گا۔ (کیونکہ وہ تنگی میں پسند ہوتا ہے) لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں‘ پسند آئے گا تو حضرت سلمیٰؓ اٹھیں اور تھوڑے سے جو لے کر ہانڈی میں ڈالے اس پر ذرا سا زیتون کا تیل ڈالا اور کچھ مرچیں اور زیرہ وغیرہ مسالہ پیس کر ڈالا اور پکا کر سامنے رکھ دیا اور کہا کہ یہ رسول اللہؐ کو پسند تھا۔
رسول اللہ ؐکے اس دسترخوان پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوا کہ آپ صرف زندہ رہنے کے لیے کھاتے تھے۔ جبکہ عام انسان اس طرح کھاتا ہے گویا کھانے ہی کے لیے زندہ ہے۔