پروفیسر مولانا محمد یوسف خان
ؓ رسول اکرم ؐ سے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ایک روز نماز کا ذکر کیا پس فرمایا جو شخص نماز کی حفاظت کرتا ہے تو یہ نماز اس کے لیے نور کا سبب ہو گی، کمال ایمان کی دلیل اور قیامت کے دن بخشش کا ذریعہ ہوگی اور جو نماز کی حفاظت نہ کرے اس کے لیے نہ نور ہو گا نہ کمال ایمان کی دلیل ہو گی‘ نہ بخشش کا ذریعہ ہو گا اور وہ قیامت کے دن قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ اْٹھایا جائیگا (یعنی ان لوگوں کے ساتھ اس کا حشر ہو گا)‘‘(رواہ الدارمی والبیہقی)
چنانچہ نماز کی حفاظت اور پابندی اتنا اہم عمل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں نمازوں کی حفاظت کا حکم فرمایا: نمازوں کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ ان کے آداب و احکام کو پورا کرتے ہوئے پابندی کے ساتھ نمازوں کو ادا کیا جائے۔
انسان کسی بھی کام کو مکمل حفاظت کے ساتھ اسی وقت پورا کر سکتا ہے جب کہ اس کو وہ کام بخوبی کرنا آتا ہو اور اسے اس کام کی اہمیت معلوم ہو۔ نماز کی اہمیت قرآن و حدیث میں بہت تفصیل سے بیان کی گئی ہے اور ایک مسلمان کے لیے اس سے زیادہ کون سی بات اہم ہو گی کہ نماز پڑھنے کا حکم اس کے پروردگار نے دیا ہے بار بار اپنے پاکیزہ کلام میں ’’اقیموا الصلوٰۃ‘‘کا حکم فرمایا۔ جب نماز کی اہمیت دل میں پختہ ہو گئی تو اب دوسرے مرحلہ میں اس بات کی ضرورت ہو گی کہ نماز کا عمل خوب اچھی طرح آتا ہو اس کے لیے ہمیں نماز سے متعلقہ کتابیں پڑھنی چاہئیں اپنے بزرگوں اور علماء سے باقاعدہ پوچھ پوچھ کر سیکھنا چاہیے اور پھر جب آپ نماز پابندی سے پڑھیں گے اور اس کے آداب کا خیال رکھتے ہوئے دن میں پانچ بار ان پر عمل ہو گا تو ظاہر ہے کہ نماز کی حفاظت آسان ہو جائے گی۔
عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی طالب علم کے امتحانات قریب ہیں یا کسی شخص کو کوئی مشکل پیش آگئی تو وہ پابندی سے پانچ وقت کی نماز مسجد میں ادا کرنے لگتا ہے ایسے لوگوں سے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ جناب ضرورت کے پیش نظر عبادت ہو رہی ہے بلکہ ایسے لوگوں سے یہ کہنا چاہیے کہ جب آپ نے پابندی سے چند روز یہ کام کیا ہے تو لازماً آپ کو اس کی عادت پڑ چکی ہو گی کہ نماز کا وقت ہوا تو فوراً تیاری کر کے مسجد کی طرف چل دئیے اب اس عادت کو پوری زندگی جاری رکھنے کی کوشش کیجیے۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ حفاظت صلوٰۃسے مراد یہ بھی ہے کہ نماز کو پابندی سے ادا کیا جائے کسی بھی کام کی پابندی صرف اس وقت ممکن ہے جب کہ اس کام کی عادت پڑ جائے اور ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ کسی کام کی عادت اس وقت پختہ ہوتی ہے جب کام کرنے والے کو اس کام میں لگن اور شوق ہو اور دوسری طرف اس شخص کو کسی بھی قسم کا فائدہ نظر آتا ہو۔ اس لیے ہمیں وہ بشارتیں اور انعامات ذہن میں رکھنے چاہئیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے۔
آخرت میں اللہ تعالیٰ نے جنت اور اس کی بہت سی نعمتوں کا وعدہ نماز کے لیے مقرر فرمایا اور دنیا کی زندگی میں نماز کی ادائیگی کا ثمرہ یہ بیان فرمایا ۔۔۔ یعنی ’’نماز برے کام اور ایسے کاموں سے روکتی ہے جو حیاء کے خلاف ہوں۔‘‘دیکھئے انسان وقتی بیماری کے لیے وقتی دوا کھاتا ہے اور شفایاب ہو جاتا ہے لیکن اگر بیماری کے جراثیم لمبی مدت تک جسم میں موجود رہنے کا خدشہ ہو تو طویل مدت تک دوا استعمال کی جاتی ہے لیکن انسان کے اندر برے کام پر ابھارنے والا نفس تو ہر وقت موجود رہتا ہے وہ اسے برائیوں پر اکساتا رہتا ہے اور یہ برائی کے جراثیم ساری زندگی عام انسان کے اندر رہتے ہیں لہٰذا اس کا علاج یعنی نماز بھی ساری زندگی ہی جاری رہنا چاہیے۔ رہا یہ کہ نماز کا عمل ساری زندگی کس طرح پابندی سے جاری رکھا جائے تو اس کے لیے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت سامنے آتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ؛ فرمایا’’کہ جو شخص چالیس دن اس طرح نماز پڑھے کہ جماعت کے ساتھ پہلی تکبیر ہی میں شامل ہوتا رہے تو اس کے لیے چھٹکارے کی دو دستاویزات لکھ دی جاتی ہیں ایک جہنم کی آگ سے چھٹکارے کی دستاویز اور دوسرے نفاق سے بری ہونے کی دستاویز‘‘اس طرح حدیث پر عمل کرتے ہوئے اتنی بشارت بھی نصیب ہو جاتی ہے اور نماز باجماعت کی عادت بھی ہو جاتی ہے۔
جب ایک دفعہ حفاظت صلوٰۃ کا عمل پختہ ہو جائے تو پھر کسی رکاوٹ کو درمیان میں نہ آنے دیجئے نہ کاروبار نہ دیگر مصروفیات اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا خاص طور پر اہم مقام بیان فرمایا جنہیں ان کے کاروبار وغیرہ نماز سے غافل نہیں کرتے۔اللہ تعالیٰ ہمیں نماز کے آداب و مسائل کو ملحوظ رکھتے ہوئے پابندی سے نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔