فرسودہ نظام انصاف میں بہت سی اصلاحات ہونا ہیں،اعظم نذیر تارڑ

 وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ فرسودہ نظام انصاف میں بہت سی اصلاحات ہونا ہیں اور سب کی ذمہ داری ہے کہ فرسودہ نظام انصاف کو تبدیل کریں، عدلیہ سے گزارش کروں گا انصاف تول کر کریں،فرسودہ نظام انصاف میں تبدیلی کیلئے بار کونسل سے بھی تجاویز لیں گے۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے راولپنڈی میں تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے فرسودہ نظام انصاف میں بہت ساری کشیدہ کاری ہونے والی ہے، یعنی اصلاحات ہونی ہیں، جس کیلئے اس واقعے نے بھی آنکھیں کھولی ہیں لیکن نئی اسمبلی کے بننے کے بعد نواز شریف نے مجھے خاص طور پر یہ ہدایت کی کہ فوجداری نظام انصاف کا کوئی حال نہیں ہے، اس کا کچھ کریں۔ وزیر قانون نے کہا کہ ہم نے وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں جنگی بنیادوں پر فوجداری قوانین پر کام کیا، اس کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جس کی متعدد ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں۔لوگوں کو انصاف کی فراہمی کیلئے کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں وکلا کی موجودگی میں اس بات کو دہراتا ہوں کہ بہت جلد ہمارے فوجداری قوانین بہتر شکل میں نظر آئیں گے تاکہ عصر حاضر کے جو تقاضے ہیں، ماڈرن ٹائم کے جرائم تبدیل ہوچکے ہیں، اس میں تبدیلی نظر آئے گی۔عدلیہ وکلا کو گلے سے لگا کر رکھے، وکلا دہشتگرد نہیں ہیں۔فساد پیدا کرنے والے نہیں ہیں، وکلا پر دہشتگردی کے پرچے درج کرانا عدلیہ کے شایان شان نہیں، جب تک میں ہوں،وکلا پر اب دہشتگردی کا مقدمہ نہیں ہوا۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ اٹک کچہری میں وکلا کا قتل ہمارے لیے ٹیسٹ کیس اور حکومت کیلئے چیلنج ہے،انصاف ہوگا بھی اور ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ ہم کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کریں گے چاہے وہ ملزم ہے،وکلا کے قتل میں ملوث ملزم گرفتار ہوچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک اسرار نے کم وقت میں بڑا مقام حاصل کیا، مرحوم ملک اسرار سے میرا بہت اچھا تعلق تھا اور ان کا قتل ہمارے لیے بھی ایک چیلنج، ہمارے نظام اور سسٹم کیلئے بھی ایک چیلنج ہے، ہر قتل اندوہناک ہوتا ہے، یہ سب سے بڑا جرم ہے اور ہمارا دین بھی یہ کہتا ہے کہ گویا جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔ میرے لئے بطور وزیرقانون یہ بات تکلیف دہ ہے اور آپ میں سے کوئی ایسا شخص نہیں ہوگا جو اس بات کی تردید کرے کہ میرے ملک میں سنگین جرائم جن میں قتل، ڈکیتی رہزنی، اغوا برائے تاوان شامل ہیں، ان میں سزا کی شرح شاید 10 فیصد بھی نہ ہو، ایسے میں ہم روز محشر ان لواحقین اور شہدا کو کیا منہ دکھائیں گے۔جن کی جانیں بے گناہ لے لی گئیں۔ ہم یہ نظام چلارہے تھے۔

ای پیپر دی نیشن