پےپلز پارٹی نے سےاسی مفاہمت کے نظرےہ کے تحت، انتخابات کے بعد پارلےمان مےں موجود قرےب قرےب تمام سےاسی جماعتوں کو شرےک اقتدار کر لےا تھا، لےکن سانجھے کی ےہ ہنڈےا زےادہ دےر ثابت نہ رہ سکی۔ اےک اےک کر کے فرےق علےحدہ ہوتے گئے۔ سب سے پہلے تو مسلم لےگ (ن) نے وفاقی حکومت کی شراکت ترک کی، پھر جمعیت العلمائے اسلام (ف ) علےحدہ ہوئی۔ اےم کےو اےم اس کے بعد وفاقی حکومت سے باہر ہوئی۔ سب سے آخر مےں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب حکومت سے پےپلز پارٹی کو خارج کےا۔ اےم کےو اےم اور پےپلز پارٹی کا اتحاد بھی اپنی طرز کا واحد اتحاد ہے، مستقل روٹھا منائی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ آج اےم کیو اےم حکومت کا حصہ ہے، آج نہےں ہے۔ پھر مذاکرات ہوتے ہےں، گلے شکوے دور کرنے کی ےقےن دہانی کرائی جاتی ہے، خفگی دور ہو جانے پر اےم کےو اےم پھر اتحاد مےں واپس آ جاتی ہے۔ ےوں تو پےپلز پارٹی کو سندھ مےں حکومت کے واسطے کسی دوسری جماعت کے تعاون کی ضرورت نہےں لےکن اےک تو متحدہ کی سندھ کے شہری حلقوںمےں واضح اکثرےت دوسرے وفاق مےں حکومت کے واسطے اس کی مدد کی ضرورت نے اےم کےو اےم کی اہمےت کو بہت بڑھا رکھا ہے۔
مسلم لےگ (ن) کو احساس تو تھا کہ پےپلز پارٹی سے اتحاد فطری نوعےت کا نہےں۔ وہ توعام انتخابات سے ذرا دےر پہلے کے واقعات، مےثاق جمہورےت پر دونوں جماعتوں کا اتفاق ، ےہ عہد کہ دونوں جماعتےں ماضی کی تلخےوں کو فراموش کر کے مفاہمت کی واضح داغ بےل ڈالےں گی۔ اےک دوسرے کے مےنڈےٹ کا اہتمام کےا جائے گا وغےرہ۔ اےسے معروضی حقائق بن گئے جن سے مفر مسلم لےگ (ن) کے لئے آسان نہ تھا۔ سب سے بڑھ کر پنڈی کے لےاقت باغ مےں بے نظےر کی شہادت کے اندوہناک واقعہ نے دونوں جماعتوں کو اےک دوسرے کی طرف دھکےلا۔ لےکن ےہ دونوں جماعتےں فطری طور پر اےک دوسرے کی حرےف بلکہ اےک دوسرے کی ضد ہےں۔ ازل سے اےک دوسرے کی مخالفت مےں مصروف اےک دوسرے کو زک پہنچانے کی کوشش پر آمادہ رہےں۔ پھر ےہ ڈھےلا ڈھالا اتحاد کےسے اور کب تک چلتا۔ چنانچہ آخرکار دونوں خم ٹھونک کے اےک دوسرے کے مدمقابل آ گئےں۔ مسلم لےگ (ن) کی خواش تھی کہ پےپلز پارٹی خود پنجاب حکومت کو خےر باد کہے تاکہ وہ اس الزام سے خود کو بچا سکےں کہ اس نے مےثاق جمہورےت سے انحراف کےا، اتحاد توڑا اور پےپلز پارٹی کو حکومت سے باہر کےا۔
پےپلز پارٹی سے نجات حاصل کرنے کی تجوےز مسلم لےگ (ن) کو سوجھی عجےب و غرےب تھی۔ اس نے پےپلز پارٹی کی حکومت کو 10 نکات پر مبنی اےک رےفارم اےجنڈہ اور 45 دن کی مہلت دی جس کے اندر اندر اس اےجنڈے پر عمل درآمد کرنا تھا۔ دونوں جماعتوں نے ا پنی اپنی کمےٹےاں بنائےں جنہےں اےجنڈے پر عمل درآمد کا کام سونپا گےا۔ ان کمےٹےوں نے نہاےت محنت اور دےانت داری سے اپنا کام کےا۔ مسلم لےگ (ن) کی کمےٹی کے سربراہ سےنےٹر اسحاق ڈار اور پےپلز پارٹی کمےٹی کے سربراہ رضا ربانی تھے۔ سےنےٹر رضا ربانی 18وےں اور 19وےں ترمےم کے خالق کہلاتے ہےں۔ جن کے مزاج کے دھےما پن اور اہلےت کے اپنے بےگانے سبھی قائل ہےں۔ ان کاکہنا تھا کہ دئےے گئے10 نکاتی رےفارم اےجنڈے پر تکمےل کا کام 45 دنوں مےں 70% ہو چکا تھا، بقےہ 30%کی راہ ہموار کر دی گئی تھی جو ہفتوں نہےں دنوں مےں ہو جاتا۔ اسحاق ڈار ربانی صاحب سے متفق نظر آتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے بہت سے معاملات حکومت سے منوا لئے ہےں باقی معاملات بھی انشااللہ عنقرےب طے ہو جائےں گے۔ لےکن مسلم لےگ ن کو 10 نکاتی رےفارم اےجنڈہ کے اندر مدت ختم ہونے کی پابندی پر اصرار تھا۔ ن لےگ جانتی تھی کہ 100 فےصد کام مکمل نہےں ہو سکتا۔ وہ تو اسے پےپلز پارٹی کو پنجاب حکومت سے باہر کئے جانے کے اےک راستہ کے طور پر اختےار کرنا چاہتی تھی۔ ورنہ اس مطالبے کی معقولےت تو اےک کھلا راز تھا۔ اب دونوں کی راہیں جدا ہیں۔ جس روز مےں مےاں نواز شرےف ےہ اخباری کانفرنس کر رہے تھے اس کے تھوڑی دےر بعد رضا ربانی نے پےپلز پارٹی پر لگائے گئے اعتراضات کا اےک اےک کر کے مدلل اور معقول جواب دےا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اےجنڈے مےں 70 فےصد پر عمل در آمد ہو چکا تھا، باقی کےلئے راہ ہموار کر لی گئی ہے اور اس پر بھی عنقرےب عمل درآمد ہو جائے گا۔ مسلم لےگ (ن) نے اےجنڈے پر عمل درآمد کےلئے 45 دن کی مہلت اسی لئے دی تھی کہ نہ نو من تےل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ اب جبکہ پےپلز پارٹی پنجاب حکومت سے باہر ہو چکی مسلم لیگ (ن) کےلئے اسمبلی کی کارروائی چلانا دوبھر ہو رہا ہے۔ روزمرہ اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاج ہوتا ہے۔ لوٹوں کی نمائش ہوتی ہے انہےں ٹھوکرےں ماری جاتی ہےں۔
رےاستی اداروں مےں تازہ ترےن ہےجان نما ٹکراﺅکی سی کےفےت کا آغاز چےئرمےن نےب کی تقرری کے مسئلہ پر اےک عدالتی فےصلہ سے ہوا۔ جسٹس رےٹائرڈ دےدار شاہ کو جو چےف جسٹس سندھ ہائی کورٹ اور جج سپرےم کورٹ کے عہدوں پر متمکن رہ چکے ہےں حکومت نے چےئر مےن نےب مقرر کر دےا۔ عدالت عظمیٰ نے اس بنا پر تقرر کالعدم قرار دے دیا کہ چےئرمےن کے تقرر مےں ضابطہ کی کارروائی پےش نظر نہےں رکھی گئی، مثلاً قائد حزب اختلاف سے مشاورت نہےں ہوئی ۔ تقرری بغےر وزےراعظم کی سفارش کئے ہو گئی اور آئےن کے معےار پر پوری نہےں اترتی۔ حکومت نے ضابطے کی ان دو خامےوں کو دور کرنے کا فےصلہ کےا۔ پارلےمان مےں قائد حزب اختلاف چوہدی نثار سے مشاورت کی غرض سے انہےں اےک مراسلہ تحرےر کےا گےا۔ جو قائد حزب اختلاف کو موصول تو ہو گےا لےکن ابھی تک انہےں اس مراسلہ کو کھول کر پڑھنے کی فرصت نہےں ملی۔ کےا خوب گوےا پارلےمانی ذمہ دارےوں سے بڑھ کر کوئی اور مصروفےت قائد حزب اختلاف کو لاحق ہو سکتی ہے۔ عدلےہ کے فےصلے کے بعد پےپلز پارٹی کے سندھ چےپٹر مےں دےدار شاہ صاحب کے حق مےں اور فےصلے کے خلاف اےک ہڑتال ہوئی جس کا چےف جسٹس پاکستان نے ازخود نوٹس لے لےا ہے اور حکومت سندھ سے رپورٹس طلب کی ہےں۔ پےپلز پارٹی سندھ کا کہنا ہے کہ ہڑتال فےصلہ سے متعلق تھی جو اعلان کے بعد پبلک پراپرٹی ہو جاتا ہے۔ خدانخواستہ عدلےہ سے متعلق نہےں تھی۔ ادھر سی آئی اے کے کنٹرےکٹر رےمنڈ ڈےوس کی اچانک رہائی کو مےڈےا ، بعض مذہبی اور سےاسی تنظےموں نے جس نظر سے دےکھا اور احتجاج کےا اس کے پےش نظر ےہ بات ےقےنی ہے کہ وفاقی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت دونوں کے لئے آئندہ چند روز بلکہ چند ہفتے کچھ زےادہ اطمےنان اور سکون کا باعث نہےں ہوں گے۔ عوام رےمنڈ ڈےوس کی رہائی سے بہت ناراض ہےں اور اس اقدام کو قومی حمےت کے خلاف سمجھتے ہےں۔ عوامی جذبات کو ٹھنڈا ہونے مےں وقت لگے گا۔
جمہورےت کا اصل مقصد عوام کی خدمت کرنا ، ان کے مسائل کے حل پر توجہ صرف کرنا ہے۔ بدقسمتی سے ہو ےہ رہا ہے کہ حکومتوں کا بےشتر وقت عوام کے مسائل حل کرنے مےں نہےں لاحاصل سےاسی جھگڑے نمٹانے مےں صرف ہوتا ہے۔ وزےر اعظم کہتے ہےں کہ ان کی جماعت کو 5 سال تک حکومت کرنے کا آئےنی حق حاصل ہے۔ اس مدت کے بعد ان سے پو چھا جائے کہ اس دوران ان کی حکومت نے کےا کچھ کےا؟ وزےراعظم ےہ بھی کہتے ہےں کہ ان کی حکومت کو مسائل ورثہ مےں ملے ۔ اول تو اس بےان کی صحت سے اتفاق کرنا دشوار ، دوسرے اگر مان بھی لےا جائے کہ مسائل ورثہ مےں ملے تو تےن سال کے عرصے مےں مسائل حل ہونے کی شروعات تو ہو جانی چاہےے تھی۔ دوسرے اس حکومت کے عہد مےں کرپشن اور بد عنوانی کی جو داستانےں سننے مےں آئی ہےں وہ تو حکومت کو ورثہ مےں نہےں ملےں؟ ےہ تو حکومت کی اپنی کاوش کا نتےجہ ہےں۔ بدبختی کہ صرف وفاقی حکومت تک محدود نہےں، صرف وہےں جمہوری نظام کے ذرےعہ عوام کی خدمت اور ان کے مسائل حل کرنے مےں حکومت کی ناکامی کا تذکرہ نہےں کےا جا سکتا، بد انتظامی اور اصلاح احوال مےں ناکامی مےں صوبائی حکومتےں بھی برابر کی ذمہ دار ہیں۔ چند بےش قےمت منصوبے شروع کر کے ےہ سمجھ لےنا سادگی ہو گا کہ لوگوں کے مسائل حل ہو رہے ہےں۔ لوگوں کے مسائل کم نہےں ہر لمحہ بڑھ رہے ہےں۔ ان کی زندگی عذاب بن چکی ہے۔ کاش ہمارے رہنماﺅں بالخصوص حکمرانوں کو اس کا احساس ہو سکے!