گورا ہاکی کوچ ”خس کم جہاں پاک“ اور اختر رسول....!

حافظ محمد عمران
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے لاڈلے غیر ملکی کوچ مشل وین ڈین کی پاکستان ہاکی سے علیحدگی اور ایک مرتبہ پھر اختر رسول کو چیف کوچ و منیجر کی اہم ذمہ داری دی گئی ہے۔ وین ڈین کو جب تک ضرورت تھی وہ ٹیم کے ساتھ رہا اور سب سے بڑے اور اہم امتحان کے موقع پر ایک بزدل سالار کی طرح ٹیم کو چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ یقینی طور پر یہ لمحہ فکریہ ہے ان تمام لوگوں کے لئے جنہوں نے وین ڈین کی پاکستان آمد سے بھاگنے تک اس کا دفاع کیا۔ رائے عامہ ہموار کی اس کی تعریفیں کرتے رہے، اس کے ہر غلط فیصلے کا دفاع کرتے اور اس کی خامیوں کو چھپاتے رہے۔ اس دوران کچھ لوگ حق بات تو کرتے رہے لیکن جہاں حق اور سچ کی ضرورت تھی وہاں مصلحت پسندی سے کام لیتے رہے۔ جن دنوں میڈیا میں وین ڈین کے بھاگنے کی خبریں آرہی تھیں۔ خواجہ ذکاالدین سے ان کی رائے لی تو انہوں نے جواب میں ”خس کم جہاں پاک“ کہہ کر بات ختم کر دی۔ پھر یوں کہا کہ اس نے ہمیں کیا دیا ہے۔ کچھ بھی تو نہیں‘ ایشین گیمز میں گولڈ میڈل لیکن کیسے‘ ہاکی سمجھنے والے اور کھیلنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ہم برا کھیل کر جیتے۔ سلمان اکبر اکیلا واضح فرق تھا۔ گرا¶نڈ میں تو ہم فاش غلطیاں کرتے رہے۔ آصف باجوہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ہماری ٹیم کی تیاری اچھی ہے کسی ایک شخص کے جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ نئے کوچ و منیجر اختر رسول ایک کامیاب کھلاڑی اور منتظم کی حیثیت سے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ اختر رسول کے دور کے کھلاڑی یہ کہتے ہیں کہ وہ مصلحتوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں لیکن کام کرنے اور متحد ہو کر ہاکی کی ترقی اور فروغ کے لئے وہ ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کی چیف کوچ و منیجر کی تقرری خوش آئند ہے۔ اختر رسول وین ڈین کے حق میں نہیں تھے اور نہ ہی اسے ایک اچھا کوچ سمجھتے تھے۔ موجودہ کھلاڑیوں سے ٹیم کے نئے چیف کوچ کو یہ شکوہ ہمیشہ رہا ہے کہ نوجوان محنت نہیں کرتا۔

ای پیپر دی نیشن