یوسف رضا گیلانی کی بطور امیدوار اہلیت خطرے میں!

راﺅ شمیم اصغر
عام انتخابات کے انعقادکی تاریخ کے اعلان کے بعد اس بارے میں شکوک و شبہات کے بادل چھٹ گئے ہیں اور ملک بھر میں سیاسی سرگرمیوں اور جوڑ توڑ کی سیاست میں تیزی آ رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کی بے وقت بیرون ملک روانگی کے باعث پارٹی تبدیلی کے بہت سے اعلانات میں تاخیر ہوئی ہے۔ اس معاملے میں آئندہ تین چار روز فیصلہ کن قرار دئیے جا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے کم از کم ضلع ملتان کی حد تک اپنی صفوں کو کافی حد تک درست کر لیا ہے۔ جن نشستوں پر فیصلہ نہیں ہو سکا وہاں انتظار ہے کہ مسلم لیگ (ن) کیا فیصلے کرتی ہے کیونکہ بعض حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ایک سے زائد ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ جسے ٹکٹ نہ ملا پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین اس پر ڈورے ڈالے گی۔ اس سلسلے میں رابطے ابھی سے موجود ہیں۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے قریبی حلقوں کی جانب سے یہ چونکا دینے والا فیصلہ سامنے آ چکا ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کا خانوادہ تین کی بجائے صرف دو قومی حلقوں سے الیکشن لڑنے کا اصولی فیصلہ کر چکا ہے۔ اس فیصلے میں تبدیلی کسی انہونی کے باعث ہی ہو گی۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بارے میں اپیل عدلیہ میں زیر سماعت ہے۔ اس اپیل کے فیصلے کے بعد ہی صورتحال واضح ہو گی کہ سید یوسف رضا گیلانی الیکشن لڑتے ہیں یا نہیں۔ اگر نااہلی برقرار رہی تو ان کے حلقہ انتخاب این اے 151 سے ان کے بڑے صاحبزادے سید عبدالقادر گیلانی امیدوار ہوں گے۔ اگر اپیل منظور ہوتی ہے اور نااہلی ختم ہوتی ہے تو سید یوسف رضا گیلانی خود اس حلقے سے الیکشن لڑیں گے اور عبدالقادر گیلانی الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔ اب ان افواہوں نے دم توڑنا شروع کر دیا ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی این اے 152 (شجاع آباد ضلع ملتان) سے الیکشن لڑیں گے۔ گیلانی خاندان کے ذرائع کے مطابق این اے 152 سے 2008ءکے الیکشن میں کامیاب ہونے والے پیپلز پارٹی کے رہنما نواب لیاقت علی پر بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ ہی الیکشن لڑیں گے۔ این اے 151 سے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سید یوسف رضا گیلانی یا سید عبدالقادر گیلانی کا مقابلہ ملک سکندر حیات بوسن سے ہو گا جو 2008ءکے الیکشن میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر سید یوسف رضا گیلانی سے ہار گئے تھے۔ پھر سید یوسف رضا گیلانی نااہل قرار دئیے گئے اور یہ نشست خالی ہوئی تو سید عبدالقادر گیلانی اس نشست پر مقابلہ کریں گے۔ تحریک انصاف کے سونامی کی ابتداءہوئی تو ملک سکندر حیات بوسن تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) ان سے مسلسل رابطے میں رہی لیکن 2012ءکے ضمنی الیکشن میںوہ مسلم لیگ (ن) کی جانب راغب ہوگئے۔ کہا جا رہا ہے کہ ملک سکندر بوسن مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا فیصلہ کر چکے ہیں ۔دوسری جانب سے مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما ملک عاشق علی شجرا بھی ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ ملک عاشق علی شجرا اور ان کے صاحبزادے ملک مشتاق شجرا یونین کونسلوں کے ناظم رہ چکے ہیں۔ پورے حلقہ میں ان کا وسیع اثر اور بڑا ذاتی ووٹ بنک ہے۔جبکہ ملک احمد حسین ڈیہڑ بھی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ اس لئے پی پی 200 کی ٹکٹ کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) کے لئے بڑا کڑا امتحان اس لحاظ سے بھی ہو گا کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے مسلم لیگ (ن) کے فیصلے کے بعد اس حلقے سے اپنے امیدوار کا تعین کرنا ہے۔ جسے ٹکٹ نہیں ملے گا پیپلز پارٹی اسے منانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگادے گی۔ اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ ملک سکندر حیات بوسن مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوتے ہیں تو وہ اس حلقہ میں اپنے بھائی کو امیدوار بنانے کے لئے ٹکٹ طلب کریں گے۔ پی پی 198 میں الیکشن 2008ءمیں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے شہزاد مقبول بھٹہ نے الیکشن لڑا تھا تاہم وہ ملک عامر ڈوگر سے ہار گئے تھے۔ اب وہ پھر بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں ہیں لیکن ٹکٹ کے حصول کے لئے ان کا مقابلہ شاہد مختار لودھی سے ہے جو مسلم لیگ (ن) کے ضلعی نائب صدر اور لیبر ونگ کے صوبائی رہنما ہیں۔ مقامی سطح پر پوری پارٹی نے ضد کی حد تک فیصلہ کر رکھا ہے کہ انہیں ٹکٹ ضرور دلوانا ہے۔ شاہد مختار لودھی اور حمزہ لودھی نے پہلے ہی شہر میں سیاسی سرگرمیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان کے دیکھا دیکھی شہزاد مقبول بھٹہ بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ پارٹی اور این اے 151 میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کے لئے یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہو گا کہ وہ کس کا انتخاب کریں۔ این اے 151 کے نیچے پی پی 199 کی چند یونین کونسلیں بھی آتی ہیں جہاں مسلم لیگ (ن) میں حال ہی میں شامل ہونے والے مخدوم عباس اکبر مونی شاہ امیدوار ہوں گے۔ 2002ءاور 2008ءمیں اس حلقہ سے پیپلز پارٹی کے سید ناظم حسین شاہ کامیاب ہوتے رہے ہیں اور مخدوم عباس اکبر مونی شاہ معمولی ووٹوں سے ہارتے رہے ہیں اب جبکہ ان کے پاس ایک بڑی اور مقبول پارٹی کا ٹکٹ ہے تو مقابلہ کانٹے دار ہو گا۔ تحریک انصاف کی جانب سے این اے 151 کے علاوہ پی پی 200‘ پی پی 198 میں ابھی کوئی اہم امیدوار سامنے نہیں آیا۔ ممکن ہے ٹکٹ نہ ملنے والے سیاسی رہنما¶ں میں سے کچھ امیدوار سامنے آ جائیں تاہم پی پی 199 میں مخدوم عباس اکبر مونی شاہ کے ایک کزن مخدوم شیرشاہ تحریک انصاف کے ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ دونوں کزنوں میں صلح کیلئے خاندان کے قریبی حلقے کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کوششیں بھی آئندہ انتخابات پر اثرانداز ہوں گی۔ اس صورتحال میں این اے 151 اور اس کے نیچے کی نشستوں پر مقابلے بڑے دلچسپ ہوں گے کیونکہ یہ حلقہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا ہے۔ آئندہ انتخابات میں ہی فیصلہ ہو گا کہ سابق وزیراعظم نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...