عام طور پر ہم پاکستانیوں کا شیوہ یہ ہے کہ ہم کر سی کو اور کرسی والے کو سلام کرتے ہیں ۔ عہدے اہم اور علم غیر اہم ہوچکا ہے۔دانش کی نہیں ، مادیت کی قدر ہے ۔ یہ باتیں بہت بار دہرائی جاتی ہیں اور شائد اسی لئے اپنے معنی بھی کھو چکی ہیں ۔ کیچڑ میں کھلا ہوا کنول دیکھا تو اس کا ذکر کرنا میرا فرض ہے ۔ کیونکہ پاکستان اور دنیا میں جہاں جہاں بھی پاکستانی ہیں ان کے اندر مایوسی کا اندھیرا اس قدر گہرا ہوچکا ہے کہ جو روشنی مجھے نظر آرہی ہے میںباقی سب کو بھی دکھلاﺅں۔ کسی سرکاری افسر کی تعریف میرے جیسا انسان کرتے ہوئے خوفزدہ رہتا ہے کہ کہیں یہ خوشامد کے زُمرے میں نہ آجائے۔ کینڈا میں پاکستان کے قونصل جنرل عمران علی کے عہدے کے ساتھ سابق لگتے ہی میری مشکل آسان ہوگئی، تسلی ہوگئی۔ پاکستانی قونصلیٹ ٹورنٹو جس کی حالت بہت ہی ناگفتہ بہ تھی پر میں پہلے بھی قلم گھیسٹ چکی ہوں ۔وہاں جا کر ہمیشہ پاکستان کی یاد تازہ ہوتی تھی ، جیسے ایک صاحب PIA میں سفر کر رہے تھے ، ائیر ہوسٹس کو پاس بلا کر کہنے لگے یہاں مجھے بالکل گھر والا ماحول مل رہا ہے ۔ وہ بہت خوش ہوئی ابھی اس کے دانت پوری طرح نکلے بھی نہ تھے کہ صاحب فرمانے لگے ۔۔۔نہ گھر میں میری کوئی عزت ہے نہ یہاں ۔۔ تو یہی حال پاکستانی قونصلیٹ کا تھا جہاں پاکستان کے سات رنگ موجود تھے ۔ پاکستان کے کسی بھی دفتر کے باہر پھرنے والے ایجنٹس کی طرح یہاں بھی قونصلیٹ تک عام لوگوں کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے مکھیوں کی طرح ایجنٹس بھنبھنا نے لگے تھے ، پاکستانی پاسپورٹس کا حصول اس مافیا کا محتاج ہوگیا تھا جو فی پاسپورٹ پانچ سے چھ ہزار ڈالرز شہد کی طرح چوسنے لگے ۔ لمبی لمبی لائنیں، دفتری کاروائیاں، ایک ہی وقت میں معلومات نہ دینا اور لوگوں کو پاکستانی مخصوص انداز میں چکر لگوانا بلکہ انہیں چکرا کے رکھ دینا۔ قونصل جنرل کا چندا ماموں کی طرح بچوں کی پہنچ سے بہت دور رہنا، جسے قریب سے وہ صرف خواب میں ہی دیکھ سکتے تھے۔ قونصلیٹ کے عام افسروں کا بار بار لنچ ٹائم۔ اور لوگوںکا وہاں چھوٹے سے کام کے لئے گھنٹوں بھوکوں مرنا۔ یہ سب قصے ہیں قبل از عمران علی۔ اس نوجوان نے دیکھتے ہی دیکھتے پاکستانی قونصلیٹ کو مکمل طور پر نہ سہی مگر کینیڈین آفسز کے قریب تر کر دیا۔ عمران علی نگران قونصل جنرل کے عہدے پر تقریبا ایک سال رہے مگر دیکھتے ہی دیکھتے قونصلیٹ کا نقشہ بدل دیا۔ پاسپورٹ کا حصول اس قدر آسان بنا دیا گیا کہ باہر بیٹھا مافیا اپنی موت آپ مر گیا۔ عام لوگوں کے کام مناسب وقت میں ہونے لگے ، اور جو کام آج تک کسی پاکستانی قونصلیٹ نے نہیں کیا ہوگا کہ ویب سائٹ پر 24گھنٹے کے لئے ایمرجنسی رابطے کا نمبر دے دیا گیا ۔یعنی پاکستانی قونصلیٹ فقط ایک SMSکے فاصلے پر۔
قونصلیٹ میں کینٹین اور بچوں کے کھیلنے کے ایریاز بنا دئے گئے۔ بارہ سالوں میں ٹورنٹو میں ہم نے کبھی پاکستانی قونصلیٹ کو اتنا کمیونٹی فرینڈلی نہیں دیکھا۔ اسی روشن دور میں پاکستانی قونصلیٹ کے نئے دفتر کی افتتاخی تقریب میں مختلف نظریات اور مختلف فرقوں کے لوگوں کو ایک چھت کے نیچے دیکھنے کا معجزہ نظر آیا۔ پاکستانی کمیونٹی کے مسائل کو کینیڈین حکومت تک بھی پہنچانے کی بہت مخلص کوششیں نظر آئیں۔ مثال کے طور پر یہ بات کینیڈین آفیشل کے سامنے تقریر میں رکھنا کہ ساﺅتھ ایشیا میں پاکستان ہی کیوں ایسا ملک ہے جس کے باسیوں کو اپنے شریک ِ حیات کو پاکستان سے بلانے کے لئے 26مہینے کا عرصہ درکار ہے باقی جب کہ اس خطے کے سارے ممالک کےلئے spousal visa ملنے کا وقت چھ مہینے ہے۔
ہم سب پاکستانی، نفیس زکریا نئے قونصل جنرل کو اس امید کے ساتھ خوش آمدید کہتے ہیں کہ وہ مخلص اور کمیونٹی کا درد رکھنے والے سابقہ قونصل جنرل کی محنت سے ڈالی گئی روایات کو جاری رکھیں گے کیونکہ دستک پروگرام میں کئے گئے انٹرویو میں اُن میں بھی مجھے بیوروkریسی کا رنگ کم اور لوگوں کی خدمت کا جذبہ زیادہ نظر آیا۔ یوں ہی دیئے سے دیئے جلتا ہے اور روشنی پھیلتی ہے اور کیچڑ میں کھلے کنول کی تعریف ان پھولوں سے کہیں زیادہ ضروری ہے جو خوبصورت باغ میں کھلتے ہیں ۔