انگریزوں نے مسلمانوں کو سیاسی، مذہبی، سماجی، اور معاشی طور پر کمزور کرنے کیلئے جو منصوبے بنائے ان میں سے ایک منصوبہ آل انڈیا نیشنل کانگریس کا قیام تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے ربع صدی بعد جب ابھی مسلمانوں کے زخم تازہ تھے ایک انگریز سرکاری ملازم ایلن آکیٹوین ہوم نے آل انڈیا نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی۔ من جملہ دیگر مقاصد کے کانگریس کے قیام کا ایک مقصد یہ تھا کہ انگر یز اور ہندو باہم مل کر مسلمانوں کا مذہبی و معاشی استحصال، انکی بچی کھچی طاقت اور ان کے سماجی مقام ومرتبہ کا خاتمہ کیسے کر سکتے ہیں۔ اسکے بعد ایک وقت آیا جب کانگریس کی زمام اختیار ہندوئوں کے ہاتھ آگئی تو کانگریس کا مسلم دشمن چہرہ اور رخ وکردار اس وقت بالکل ہی عریاں ہو گیا ۔ 1937ء میں ہندوستان کے گیارہ میں سے سات صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں۔ کانگریس نے جو مسلم کش اقدامات کی انتہاء کر دی۔
کانگریس کے اس یک نقاطی مسلم دشمن ایجنڈے سے مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ابھی ادھوری آزادی ملی ہے اور کانگریس کا ہمارے ساتھ یہ رویہ و سلوک ہے جب ہندوستان مکمل ٓزاد ہو گا اور کانگریس ہندوستان کے اقتدار و اختیار پرپوری طرح قابض ہو گی تب ہمارا کیا بنے گا؟ ہمارا مستقبل کیا ہو گا؟ہمارا دین، ہماری عزت و آبرو اور جان و مال کیوں کر محفوظ رہ سکیں گے؟اسی دوران لکھنو میں مسلم لیگ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں بانی پاکستان محمد علی جناح جو اجلاس کی صدارت کر رہے تھے نے مسلمانوں کو اتحاد کا سبق دیا اور یہ بات باور کروائی کہ مسلمان اورہندو دو قومیں ہیں مسلمانوں کی تہذیب و تمدن، زبان وادب، اسماء و القاب، فہم و اقدار، قاعدہ و قانون، ضابطہ اخلاق، رسوم ورواج اور تاریخ و روایت … سب الگ ہیں۔
جس بات نے مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوئوں سے ٹکرا جانے اور آمادئہ پیکار ہو جانے پر مجبور کر دیا وہ یہ تھی کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد برطانیہ کا ہندوستان سے انخلا یقینی ہو چکا تھا۔اسکی حالت صبح گیا یا شام گیا والی ہو چکی تھی۔ انخلا سے پہلے برطانیہ چاہتا تھا کہ اس کی فکری اور سیاسی جانشین کانگریس ہندوستان کے اقتدار کی بلا شرکت غیرے مالک و حاکم بن جائے اس صورت میں مسلمان ہندوئوں کے محکوم وغلام اور تابع مہمل بن کر رہ جاتے ۔مسلمانوں کو رام راج کی بالادستی کا یہ فارمولا کسی صورت قبول نہ تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس فارمولے پر عمل کی صورت میں وہ ہمیشہ کیلئے گائو ماتا کے پجاریوں کے غلام بن کر رہ جائینگے۔ انگریز تو پھر غیر ملکی تھے سمندر پار سے آئے تھے ان سے چھٹکارا ممکن تھا لیکن اگر مسلمان انگریزوں کے بعد ہندوئوں کے غلام بن جاتے تو چھٹکارا کسی صورت بھی ممکن نہ تھا۔ یہی سوچ اور فکر تھی جس نے مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوئوں کے مقابل لاکھڑا کیا۔اگر غور کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ اس وقت مسلمان کیسے بیک وقت انگریز اور ہندوئوں سے ٹکرا گئے اور کیسے قراردادِ پاکستان کی منظوری کے صرف سات سال کے عرصہ میں منزل مقصود کو پا گئے۔ سچی بات ہے کہ یہ سب لاالہ الا اللہ کی برکت تھی۔ لاالہ الا اللہ کی برکت سے وہ پہاڑوں سے ٹکرا گئے، مصائب و آزمائش کے سمندروں میں اتر گئے۔ تب کامیابی و کامرانی نے انکے قدم چومے اور فتح و سرفرازی کا تاج انکے سر پر سجا۔ آخر مسلمان …کامیاب کیوں نہ ہوتے ؟ کہ لاالہ الااللہ ان کی منزل، ان کی جان، ان کی پہچان، انکی شناخت، ان کانصب العین اور راہ عمل تھا۔ لاالہ الا اللہ کا نعرہ ہی۔۔۔ نظریہ پاکستان تھا۔
اسی پر پاکستان بنا اور قائم ہوا۔ جس کلمے اور نظریئے کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا آج اسی کلمے پر عمل کرنے اور نظریہ کو حرزجان بنانے سے پاکستان کی بقا، تحفظ، استحکام ، سلامتی اور اسکے ازلی دشمنوں کا مقابلہ ممکن ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں اور اس وقت کی مسلم لیگ کے قائدین کے دل اپنے مظلوم کشمیری اور فلسطینی بھائیوں کیساتھ دھڑکتے تھے۔ وہ انکے مسائل و معاملات سے بخوبی آگاہ تھے اور انکے حل کیلئے ہر جگہ اور ہر موقع پر آواز اٹھانا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ پس اب احیائے نظریہ پاکستان کاتقاضا، پاکستانی عوام، علمائ، دانشوروں، کالم نگاروں، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین و کارکنان کا فرض ہے کہ وہ جب بھی 23مارچ کے حوالے سے گفتگو کریں، پاکستان کی سلامتی و استحکام کی بات کریں، پاکستان کے دشمنوں کی سازشوں سے پردہ اٹھائیں تو مسئلہ فلسطین کا ذکر بھی کریں اور اہل کشمیر کی پاکستان کے ساتھ قدیمی و پرخلوص محبت و عقیدت کا ذکر کرنا نہ بھولیں۔
مارچ 1940ء کے اجلاس کی ایک اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کیلئے علیحدہ ریاست کے مطالبہ کی سب سے زیادہ تائید وتوثیق ان ریاستوں اور صوبوں کے مسلم لیگی نمائندوں نے کی تھی جہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ یہ مسلمان کانگریس کے ڈھائی سالہ وزارتی دور میں ہندوئوں کی تنگ نظری، تعصب، خون آشامی، اسلام دشمنی اور عزتوں کی پامالی کے بھیانک واقعات کا تجربہ ومشاہدہ کر چکے تھے اور جان چکے تھے کہ ہندو کبھی بھی ان کو عزت وآبرو اور دین وایمان کی حالت کے ساتھ نہ رہنے دینگے۔بعض نمائندے ہندوئوں کے مظالم کی داستانیں سناتے رو پڑے تھے جس سے پورے اجلاس کا ماحول سوگوار اور اشکبارہو گیا تھا۔ تب وہ صوبے جہاں مسلمان اکثریت میں تھے انکے نمائندوں نے اپنے مظلوم اور ستم رسیدہ بھائیوں کو یقین دلایا تھا کہ جب آزاد اسلامی ریاست قائم ہو گی تو ہندوستان میں رہ جانیوالے مسلمانوں کو تنہا نہیں چھوڑا جائیگا، انکے دکھوں کا مداوا ، ان کے زخموں پر محبت و ہمدردی کا مرہم رکھا جائیگا اور انکی آزادی کیلئے بھرپور کوشش کی جائیگی۔
یہ وعدے و معاہدے تھے جو ہندوستان بھر سے آئے مسلمانوں نے اسلام کی عظمت وہیبت رفتہ کی شاہد شاہی مسجد کے بالمقابل ایک دوسرے سے کئے۔ ہندوستان میںرہ جانیوالے مسلمانوں نے اپنے وعدے پورے کر دیئے۔ پاکستان کے قیام کیلئے سب کچھ قربان کر دیا۔ اب سوچنا یہ ہے کہ آزاد ہونے کے بعد ہم نے ان کیلئے کیا کیا ہے؟ وہ لوگ آج بھی پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا بھگت رہے ہیں مگر ہمارے حکمران بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کیلئے بے تاب وبے قرار ہیں۔ حالانکہ بھارتی حکمرانوںکی اسلام اور پاکستان دشمنی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ وہ نظریہ پاکستان کا اس وقت بھی دشمن تھا… آج بھی دشمن ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم بھی احیائے نظریہ پاکستان کا عہد کریں تاکہ پاکستان مضبوط ہو، اس لئے کہ مضبوط پاکستان ہی بھارت میں رہ جانے والے اور مظلوم کشمیری مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت ہے۔