کراچی(آن لائن)کولیشن سپورٹ فنڈ کی آمد کے سبب کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 34.20 فیصد تک کم رہا۔ سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق جولائی سے فروری کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی مالیت ایک ارب 61کروڑ 40لاکھ ڈالر رہی۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 83کروڑ 90لاکھ ڈالر کم رہا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں نمایاں کمی فروری میں عمل میں آئی جب کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نکل کر 87کروڑ 70لاکھ ڈالر سرپلس رہا۔ جنوری میں کرنٹ اکاؤنٹ کو 7کروڑ 40لاکھ ڈالر خسارے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کرنٹ اکاؤنٹ کے سرپلس رہنے کی بنیادی وجہ سروس سیکٹر کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہے۔ فروری میں سروس سیکٹر کی ایکسپورٹ ایک ارب ڈالر سے زائد رہی جو جنوری کے مہینے میں 33کروڑ 90لاکھ ڈالر رہی تھی۔ 8 ماہ میں تجارتی خسارہ 11ارب 21کروڑ 80لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 11ارب 67کروڑ 70لاکھ ڈالر رہا۔ اشیا و خدمات کی تجارت کا مجموعی خسارہ 13ارب 3 کروڑ 60لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 12ارب 80 کروڑ 20 لاکھ ڈالر رہا۔معاشی تجزیہ کار مزمل اسلم کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ میں نمایاں کمی فروری میں ملنے والے کولیشن سپورٹ فنڈ کا نتیجہ ہے تاہم برآمدات میں اضافہ نہ ہونے اور خام تیل اور کموڈیٹی کی عالمی قیمتوں میں کمی کے باوجود درآمدات میں مسلسل اضافہ کرنٹ اکاؤنٹ کیلئے ایک کڑا چیلنج ہے۔ پاکستان کی معیشت کو درپیش ساختی خامیاں بدستور برقرار ہیں، جی ایس پی پلس کی سہولت کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہ ہونا اور درآمدات میں مسلسل اضافہ اس بات کی دلیل ہے، پاکستان اپنی ایکسپورٹ بڑھانے میں ناکام ہے۔ جبکہ مڈل ایسٹ اور سعودی عرب میں سختیوں کے سبب لانگ ٹرم میں ترسیلات پر دباؤ آسکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں توانائی کے بحران کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات نہ ہونے سے بھی معیشت مسلسل دباؤ کا شکار ہے۔ ایل این جی کی درآمد اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کیلئے پلانٹ کی درآمد سے آنیوالے وقت میں زرمبادلہ کے ذخائر پر سخت دباؤ پڑسکتا ہے۔ اسی دوران خام تیل کی قیمتوں نے سراٹھایا تو ادائیگی کا توازن مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ایف بی آر اور ٹیکس اتھارٹیز کی جانب سے بیرون ملک سے بھیجی جانیو الی رقوم اور ٹیکس گزاروں کو ہراساں کئے جانے سے بھی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔