پاکستان کیخلاف لڑی جانیوالی جنگوں کے نقصانات سے کہیں زیادہ نقصانات ماحولیاتی سازشوں سے ہوئے۔ اہل اقتدار کو جب ان نقصانات کا احساس تک ہی نہیں تو ان سے ہونیوالے نقصانات کا اندازہ انہیں کیسے ہوسکتاہے؟
ماحولیاتی سازشوں کی ابتداءسندھ طاس دریاﺅں کے پانیوں کی تقسیم کی بجائے دریاﺅں کی تقسیم سے شروع ہوئی۔ یہ تاریخ انسانی کا پہلا معاہدہ ہے جس میں دریا تقسیم کئے گئے اس معاہدہ کے تحت بند ہونے والے دریاﺅں کی ٹیل پر آباد نہ صرف انسان بلکہ مخلوق خداکے بنیادی حقوق سلب کرلئے گئے۔ پانی زندگی ہے ہر جاندار کی زندگی کو قائم و دائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ انہیں پانی میسر کیا جاتا رہے، دریا تہذیبوں کی زندگی کے ضامن ہیں جب یہ خشک کردیئے جائیں تو انکی تہذیبوں کو فنا ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ دریائے ستلج کے خشک کیے جانے پر اس کی ریچارجنگ کیلئے آج تک کوئی نہر تعمیر نہیں کی گئی، مزید زیادتی یہ کی گئی کہ خشک دریا کے علاقوں میں سفیدہ اور پاپولر کے جنگلات لگا دیے گئے جن کا ایک درخت 24گھنٹوں میں ساڑھے چار گیلن زمین کا پانی چوس کر فضا میں بکھیر تا ہے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ کپاس کے علاقوں میں شوگر ملیں لگوادیں گئیں، جس کیلئے تیس لاکھ ایکڑ زمین گنے کے زیر کاشت لانی پڑی۔ گنا سولہ پانیوں کی فصل ہے۔ اسے پانی فراہم کرنے کیلئے تقریباً 10لاکھ ٹربائینیں لاکھوں کیوسک پانی روزانہ پمپ آﺅٹ کر رہی ہیں جسکے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح خوفناک رفتار سے نیچے جارہی ہے۔ پانی میں آرسینک زہر شامل ہونے سے ان علاقوں کی عوام ہیپاٹائیٹس سی، گردے، پیٹ اور جلدی بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے ہیں۔ سفیدہ پاپولر اور گنے کی کاشت سے ماحول میں نمی پھیلنے لگی ہے پہلے فضا گرم خشک تھی اب گرم مرطوب ہونے سے کپاس دشمن ماحول پیدا ہوگیا ہے پہلے کپاس چار پانچ سپرے سے تیار ہوجاتی تھی اب بارہ سپرے کے اخراجات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں جو کاشت کار کیلئے ناقابل برداشت ہیں ۔ اگر کپاس دشمن ماحول اس طرح بڑھتا گیا تو کپاس کا کاشت کار کپاس کاشت نہیں کریگا، جس سے ملک کی زرعی اکانومی برباد ہو کر رہ جائیگی۔ نا عاقبت اندیش حکمران چینی پر توسبسڈی دیتے ہیں لیکن کپاس پر نہیں دیتے اس سال حکومت نے دس لاکھ گھانٹھ کپاس خریدنے کا اعلان کیا تھا لیکن پچانوے ہزار گانٹھ کپاس خریدنے کے بعد خریداری بند کرد ی باقی رقم چینی کی سبسڈی پر خرچ کرد ی گئی۔ جس سے کپاس کے کاشتکاروں کو نا قابل برداشت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ کیوبا اور برازیل تو چینی پیدا کرنے والے لیڈ ر ملک ہیں اس سلسلے میں درمیانے درجہ کا ملک آسٹریلیا ایک ایکڑ زمین سے ایک سو بیس من چینی حاصل کررہا ہے اسکے مقابلے میں پاکستان گنے کے ایک ایکڑ سے بمشکل بیس پچیس من چینی حاصل کررہا ہے اس سے ثابت یہ ہوا کہ عالمی منڈی میں پاکستانی چینی کی فروخت ممکن ہی نہیں حیرت اس بات پر ہے کہ اس صورتحال کے باوجود تیس لاکھ ایکڑ زمین کو گنے کے زیر کاشت لایا گیا ہے جو زرعی معیشت کیخلاف صریحاً سازش ہے۔ ماحولیاتی سازشوں نے نہ صرف کپاس کی فصل کو نقصان پہنچایا بلکہ ان سازشوں نے مقامی درخت ختم کردیئے ہیں کہاں ہے شیشم، ا±کاں، پیپل، بڑھ، نیم، کیکر، جنڈ، شرینھ، کرینھ،کچنار، سوہانجڑاں، لسوڑا اور پیلو ان درختوں کی کمی پورا کرنے کیلئے حکومت نے امریکی ریاست ٹیکساس سے انگریزی کیکر کا بیج منگوا کر جہازوں کے ذریعے سپرے کروایا اس درخت کو بھی یہ ماحول راس نہ آیا نہ ہی یہ سایہ دار درخت بن سکا اور نہ ہی اسکی لکڑی کسی کام آسکی۔ملک میں زرعی یونیورسٹیاں اور جنگلات کی تعلیم کی درسگاہیں موجود ہیں افسوس کا مقام یہ ہے کہ کسی زرعی سائنسدان نے ماحولیاتی تبدیلیوںپر تحقیق نہیں کی۔ اگر کوئی تحقیق ہوئی ہے تو منظرعام پر نہیں لائی گئی۔ کیا یہ سائنسدان بھی ماحولیاتی سازش کا حصہ بن گئے ہیں؟ضلع رحیم یار خان ماضی میں پاکستان بھر میں سب سے زیادہ کپاس پیداکرنیوالا ضلع تھا۔ حیرت کی انتہا یہ ہے کہ ضلع رحیم یارخاں میں پانچ شوگر ملیں لگادیں گئیں۔ جن کی کارکردگی آٹھ شوگر ملوں کے برابر ہے۔ پانچ شوگر ملیں ضلع رحیم یارخان کے سندھ بارڈر کے قریب لگ چکی ہیں جن کے مالکان کا تعلق ضلع رحیم یارخاں سے ہے سندھ میں گنے کے لے جانے پرکوئی پابندی نہیں اس طرح تقریباً تیرہ شوگر ملوں کا گنا ضلع رحیم یارخان سے سپلائی ہورہا ہے۔ بندہ ناچیز تحصیل صادق آباد کا ایک ادنیٰ کاشتکار ہے گنے کی کاشت کو ملک دشمنی سمجھتے ہوئے پچھلے تیس سال سے کوئی گنا کاشت نہیں کیا۔ضلع رحیم یارخان اور ضلع بہاولپور دنیا کی بہترین گندم پیداکرنے میں اول نمبرپر ہیں ان دو اضلاع کی گندم میں گلوٹن 33 %ہے جبکہ دنیا میں دوسرے نمبر پر آنیوالی گندم میں گلوٹن 22%ہے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان دو اضلاع میں گندم کیلئے ایسی مشینری نصب ہوتی جو گندم کی 100بائی پراڈکٹس تیار کرتی اس سے نہ صرف پاکستان کو زر کثیر ڈالرز کی شکل میںوصول ہوتا بلکہ پاکستان کا نام گندم کی مصنوعات میں دنیا بھر میں مشہور ہوتا۔ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ ملک کو ماحولیاتی سازشوںکی وجہ سے ناقابل برداشت نقصانات سے دوچار کیا جارہا ہے۔آج جبکہ دہشتگردی کیخلاف ضرب عضب لڑی جارہی ہے۔ کراچی کے امن کو غارت کرنیوالوں کیخلاف رینجرز کے بہادر سرفروشوں نے کارروائی کی ہے اسی طرح جن ملک دشمن عناصر نے کالا باغ اور دوسرے ڈیمز کی تعمیر کی مخالفت بظاہر علاقائی مفاد میں کی۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ تو ان ڈیمز کی تعمیر سے خیبر پختونخواہ کا علاقہ ڈوبتا تھا نہ صوبہ سندھ کا پانی ختم ہوتا تھا در حقیقت یہ مخالفت بھارت کو پاکستانی دریاﺅں پر ڈیمز تعمیر کرنے کی سازش میں مدد دینا تھی تا کہ بھارت پاکستانی دریاﺅں پر ڈیمز تعمیر کرکے پاکستان کےخلاف آبی جارحیت کرنے کے قابل ہوسکے۔ وہ جب چاہے پاکستان کو ڈبو دے اور جب چاہے پاکستان کو پیاسا مار سکے حکومت پاکستان پر فرض عائد ہوتا ہے کہ کالا باغ ڈیم اور دوسرے ڈیمز کی مخالفین کی چھان بین کرے کہ انہوں نے کتنی دولت بھارت سے حاصل کرکے پاکستان کےخلاف بھارت کو آبی جارحیت کے قابل بنایا ہے۔ جن غدداروں پر الزام ثابت ہوجائے انہیں انکے شہروں کے مشہور چوکوں پر پھانسی پر لٹکایا جائے تاکہ آئندہ کوئی غدارِ وطن کسی دشمن ملک کیساتھ مل کر وطن عزیز کو نقصان نہ پہنچا سکے۔