شاہد ندیم احمد
س: آپ نظریہ پاکستان کے داعی ہیں۔ اسی نظریے کے تحت ملک حاصل کیا گیا‘ لیکن نظریہ اسلام کی تکمیل نہ ہو سکی، اس کی کیا وجوہات ہیں؟
مجید نظامی: دراصل مسلم لیگ ایسے ہاتھوں میں آگئی جو حقیقت میں مسلم لیگی نہیں تھے، یہ لوگ نہ تو قائداعظمؒ کے پیروکار تھے نہ ہی علامہ اقبالؒ کے ہم خیال ، لیکن منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے، مسلم لیگ کی قیادت انہی کو مل گئی۔ اب اگر ان سے ہم یہ توقع کریں کہ وہ ہمارے مشن کو لے کر چلیں تو یہ غلط ہے۔ انہوں نے وہی کیا جو انہیں کرنا چاہئے تھا، اس میں غلطی ہماری ہے جو ہم نے مسلم لیگ کی قیادت ان کے ہاتھوں میں آنے دی، ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اس وقت جو لوگ مسلم لیگ کی رہنمائی کے حقیقی دعویدار تھے، انہیں اس صورت حال پر قابو پانا چاہئے تھا۔
س: تو کیا قائداعظم کا یہ فرمان کہ میری جیب میں چند کھٹے سکے ہیں، درست تھا؟
مجید نظامی: جی ہاں یہ کسی حد تک درست تھا، دراصل قائداعظمؒ کو زندگی نے مہلت نہیں دی، اگر وہ پاکستان بننے کے بعد مزید چند سال بھی زندہ رہ جاتے تو اپنی جیب سے یہ کھوٹے سکے نکال پھینکتے اور پاکستان کھرے سکوں کے حوالے کرکے جاتے۔
س : آپ سیاست اور صحافت کے حوالے سے مستند شخصیت ہیں، کیا کبھی سیاست میں آنے کا خیال نہیں آیا؟
مجید نظامی: سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو میرے بڑے مداح تھے۔ ان دنوں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے، ایک تقریب میں زین نورانی مجھے ملے اور کہا کہ خاص طور پر وزیراعظم جونیجو کا پیغام لے کر آپ کے پاس آیا ہوں، آپ گورنر پنجاب کا عہدہ قبول کرلیں۔ جب انہوں نے یہ بات کی تو نواز شریف قریب کھڑے تھے، ان کے تو چہرے کا رنگ ہی بدل گیا، ان کا یہ حال دیکھ کر میں نے کہا کہ میاں صاحب آپ پریشان نہ ہوں، میں گورنر کا عہدہ نہیں سنبھالوں گا، آپ بے فکر رہیں۔ دوسرا واقعہ میاں نواز شریف اور ان کے والد میاں شریف کا ہے، جب ذوالفقار علی بھٹو نے اتفاق فاﺅنڈریز کو ٹیک اوور کیا تو انہوں نے میرے پاس آنا شروع کردیا، اس وقت میں نواز یا شہباز کو نہیں جانتا تھا، رفتہ رفتہ ان سے بھی علیک سلیک ہوگئی، جب نواز شریف وزیراعظم بنے تو رفیق تارڑ کو صدر بنانے سے پہلے میاں شریف میرے پاس آئے اور مجھ سے صدر پاکستان بننے کی درخواست کی، مگر میں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ میں جس کرسی پر بیٹھا ہوں ، اسے ہی سب سے باعزت سمجھتا ہوں، اس لیے مجھے یہ عہدہ قبول نہیں، میرا اور نواز شریف کا تین دن بھی گزارہ نہیں ہوسکتا، یہ میرے ہاتھوں ڈس مس ہوجائیں گے۔ دراصل میں اپنے نظریات پر بہت پختہ ہوں، کوئی دھمکی، لالچ یا پیشکش مجھے اپنے نظریات سے نہیں ہٹاسکتی۔
س: کیا آپ جیسی نڈر اور قدآور شخصیت سیاست کا حصہ بن کر بہتر کردار ادا نہیں کرسکتی؟
مجید نظامی: میرے خیال میں جو کردار میں صحافت میں رہ کر ادا کررہا ہوں، وہی سب سے بہترین ہے۔
س: کیا ایک صحافی اچھا سیاستدان نہیں بن سکتا؟
مجید نظامی: بن تو سکتا ہے لیکن وہ صحافت چھوڑ کر ہی بنے گا، لیکن میں صحافت نہیں چھوڑنا چاہتا۔
س: کیا جو صحافی سیاست میں ہیں وہ بہترین کردار ادا نہیں کررہے؟
مجید نظامی: راشدی صاحب ایوب خاں کے دور میں وزیر بنے، معروف کالم نویس ارشاد احمد حقانی، فاروق لغاری کی وزارت میں آئے، فاروق لغاری نے میرے بھتیجے کو بھی حکومتی عہدے کا لالچ دیا، انہوں نے مجھ سے پوچھا تو میں ناراض ہوا کہ آپ یہ فیصلہ خود نہیں کر پائے کہ آپ کو سیاست میں نہیں ہونا چاہئے۔ عطاءالحق قاسمی سفیر بنے، لیکن ان تمام لوگوں نے سیاست میں جاکر کونسا تیر چلایا ہے۔
س: کیا آج حکومت اچھے دانشوروں سے مشاورت نہیں کررہی یا اچھے دانشوروں کی کمی ہے؟
مجید نظامی: آج ملک میں ون مین رول ہے، سینٹ یا قومی اسمبلی کسی کی کوئی اہمیت نہیں جو ایک شخص کہتا ہے، اسی کے حکم پر عمل ہوتا ہے، ایسی صورتحال میں کسی کے اچھے مشوروں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے، ایسے لوگوں کے نزدیک تو کوئی دانشور پھٹک ہی نہیں سکتا، اس وقت (مشرف دور) کوئی حکومت نہیں، ون مین رول ہے، اس صورتحال کو اپوزیشن متحد ہوکر ہی درست کرسکتی ہے۔
س: کیا آپ صدارتی نظام کے قائل ہیں اور ون مین رول صدارتی نظام کا نعم البدل نہیں؟
مجید نظامی: میں صدارتی نظام کا نہیں، قائداعظمؒ کی جمہوریت کا حامی ہوں، اس میں سربراہ مملکت آئینی ہوتا ہے اور وزیراعظم عوام کا نمائندہ ہوتا ہے جو کاروبار مملکت چلاتا ہے۔ اگر صدر مشرف کا موجودہ نظام مزید 5 سال رہ گیا یعنی کل 12 سال، پھر اس گھوڑے سے اترنا بڑا مشکل ہوجائے گا۔ صدر مشرف خود کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں صدر یا تو مارے جاتے ہیں یا قتل ہوتے ہیں، خدا نہ کرے کہ ایسا ہو۔
س: کیا یہ خرابیاں سیاست دانوں کے منفی کردار کی وجہ سے پیدا ہوئیں؟
مجید نظامی: ظاہر ہے سیاستدانوں کا بھی قصور ہے، پاکستان بننے کے بعد ابتدائی 10 سال میں بھی ملک مسائل کا شکار تھا، لیکن اس وقت بھارت کے پیدا کردہ مسائل بھی تھے، کیونکہ خزانہ اس کے پاس تھا اور ہمارے پاس کچھ نہیں تھا لیکن بعد میں آئین کو توڑنے کی ایسی رسم چل پڑی جس نے رکنے کا نام ہی نہیں لیا۔
س: کیا ملک کیلئے انقلابی سوچ بہتر ہے یا جمہوری؟
مجید نظامی: جمہوریت سب سے بہتر ہے، روایتی سیدھی سادی جمہوریت جو امریکہ، برطانیہ میں ہے، یہ نہیں کہ آپ وردی میں رہتے ہوئے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ اور سرپرست بھی بن جائیں اور پھر کہیں کہ یہ آئینی اور قانونی ہے۔ آئین اور قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ (جاری)