آندرے سال موں میں شاید ہم پاکستانیوں کی روح حلول کر گئی ہے۔ اس کی ایک نظم میں اس کے خوابوں کی روداد سنیں ”میں ایک ایسے ریلوے اسٹیشن کے خواب دیکھتا ہوں جہاں گاڑیاں ہی نہ چلتی ہوں۔۔ بے حرکتی بھی بڑا اچھا سفر ہے۔ بس صبر کر کے اپنے سامان پر بیٹھ جانا چاہیے“ آپ کسی ریلوے پلیٹ فارم پر سامان دھرے ایک مسافر کا تصور کریں جو اپنے سامان پر آلتی پالتی مار کر بیٹھا ہوا ہے اسے کسی گاڑی کا بھی انتظار نہیں، پھر اس ریلوے اسٹیشن پر کوئی گاڑی آتی جاتی بھی نہیں، واہ! وہی بات ہوئی کہ جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں، سستی کے معاملہ میں شاید ہسپانیہ کے لوگ ہم سے آگے ہیں۔ دیکھئے میں نے لفظ شاید استعمال کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ کتنا بھلا ہو آدمی کچھ نہ کرے اور تھوڑی دیر بعد سستانے لگے۔ پھر ایک بات اور بھی ہے کہ ہم نے اپنے جملہ مسائل اور مصائب کا علاج بھی یہی ڈھونڈا ہے ہم درد سہتے ہوئے اپنے آپ کو ایسے دیکھیں جیسے درد سہنے والا کوئی اور ہو۔ یہ طریقہ علاج ڈیڑھ صدی پیشتر مرزا غالب نے بتایا تھا، وہ ایک خط میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنا مسئلہ حل کر لیا ہے۔ میں نے مرزا غالب کو ایک الگ وجود قرار دیدیا ہے۔ جب مہاجن اپنے قرضہ کی واپسی کیلئے آکر تو تکرار کرتا ہے میں جھٹ کہتا ہوں اب اس سے خود ہی نپٹو۔ اپنے تئیں بڑے شاعر بنے پھرتے ہو۔ سید عبدالحمید عدم نے کہا تھا:۔
عدم روز ازل جب قسمتیں تقسیم ہوتی تھیں
مقدر کی جگہ میں ساغر و مینا اٹھا لایا
لیکن یہاں معاملہ اور ہے شاید روز اول اللہ میاں نے بیشتر بے حسی اور لاتعلقی پاکستان کے عام شہریوں کی تخلیق میں صرف کر ڈالی، فیض احمد فیض نے اپنی پنجابی نظم ”ربا سچیا“ میں پولیس کی دھونس اور مال پٹوار کی دھاندلی کا ذکر کیا ہے لوگ ان کے ظلم و ستم کو اپنی تقدیر سمجھتے ہیں، پھر وہ عدالتوں کی خجل خواری بھی قسمت کا لکھا سمجھے بیٹھے ہیں۔ آپ کسی ضلع کچہری سے چاند گاڑی پر بیٹھیں۔ آپ کو راستے میں یہ آواز ضرور سنائی دے گی ”آج پھر تاریخ پڑ گئی ہے“ محرومی بھی اک نعمت ثابت ہوتی ہے۔ اگر اس کی کوکھ سے منصفانہ طرز حکمت کی آرزو جنم لے۔ بری بات یہ ہے کہ ہمارے عوام برادری بندھنوں کی طرف لوٹ رہے ہیں، بھٹو نے 70ءمیں یہ بندھن توڑ دیا تھا کیا یہ ملک خواص کیلئے بنایا گیا ہے؟ ہاں بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے۔ جاگیرداری ختم کرنے کی بجائے ہم نے نئے جاگیردار پیدا کر لئے ہیں۔ اب جاگیروں کی نئی قسم تعلیمی جاگیریں بھی ہیں۔ مہنگے پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے ہمارا طبقاتی فرق اور بڑھا دیا ہے۔ ایک صاحب پوچھنے لگے کہ نیب مذکر ہے یا مونث؟ جواب ملا کہ اس کے لئے دیکھنا پڑے گا کہ اس کا معاملہ کس کے ساتھ ہے۔ وہ تیسری صنف بھی ہو سکتا ہے۔ ایک واقعہ سنیں۔ اسے صدرالدین ہاشوانی نے اپنی کتاب ” سچ کا سفر “ میں لکھا ہے۔ یہ خواص سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کی دلیرانہ داستان ہے۔ اس دلیری، ثابت قدمی اور استقامت کی پشت پر اس کے بے پناہ وسائل، تعلقات اور سماجی قد کاٹھ تھا۔ اس زمانہ میں ہاشوانی پاکستان کے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے فرد تھے۔ نیب کے سربراہ جنرل امجد نے اسے بلایا۔ گفتگو میں تلخی آ گئی، جنرل امجد کو مخاطب کر کے ہاشوانی نے کہا ”تمہیں مجھ پر اپنی غلیظ انگلی اٹھانے کی اجازت کس نے دی۔ میں ایک باوقار، کامیاب اور قابل احترام کاروباری آدمی ہوں“ جنرل امجد عادی نہیں تھا کہ لوگ اس کے سامنے یوں کھڑے ہو جائیں۔ اس نے بدمزاجی کے عالم میں کہا ”میں تمہیں دیکھ لوں گا“ اس پر ہاشوانی کا جواب یوں تھا ” جو جی میں آئے کرو۔ جس قدر آنسو گیس میں نے اپنی جوانی میں لی ہے تم نے اس قدر آکسیجن بھی نہیں لی ہو گی“ پاکستان کے عام شہریوں کیلئے ایسا طرز عمل اختیار کرنا ممکن نہیں۔ وہ بیچارہ حوالدار ”جوگا“ بھی نہیں ہوتا۔ پاکستان کے عام شہری مل جائیں تو شکر، نہ ملیں تو تقدیر الٰہی سمجھ کر اپنے دن پورے کر لیتے ہیں۔ اب بندہ کس کس سے لڑے اور کس کس کو روئے۔ وہ دل میں یہ سوچ کر چپ رہتا ہے کہ یہ پاکستان ہے اور یہاں ایسا ہی ہوگا۔ پھر وہ جو علامہ اقبال نے کہا تھا کہ مجھے ان نوجوانوں سے محبت ہے جو ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں۔ ویرانے کی شام اک ننھی منی کرن سے ہی جی اٹھتی ہے۔ کانوں میں کراچی کے ایک طرح دار نوجوان عالمگیر خاں کی بھنک پڑی ہے۔ یہ ”فکس اٹ“ کے روح رواں ہیں۔ کراچی کی سڑکوں پر جگہ جگہ ڈھکنوں کے بغیر گٹر منہ کھولے موجود ہیں۔ یہ بچوں اور راہگیروں کیلئے موت کے پھندے بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے چند گٹروں کے ساتھ وزیراعلیٰ سندھ کا خاکہ بنا کر لکھ دیا گیا ”فکس اٹ“ یعنی اسے درست کر دیجئے۔ سوشل میڈیا نے اسے اخباروں اور ٹی وی چینلوں تک پہنچا دیا۔ رولا غولا کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا۔ وزیراعلیٰ سندھ برہم بھی ہوئے اور یہ کہتے ہوئے کہ اب یہ کام بھی وزیراعلیٰ کرے گا، یہ ڈھکن لگوا دیئے۔ بعض اوقات چھوٹی موٹی کامیابیاں بڑے حوصلے بڑھا دیتی ہیں۔ 25 فروری کو عالمگیر خاں نے کراچی کے گلی کوچوں میں پڑے گندگی ڈھیروں کی طرف توجہ کی۔ گندگی سے ایک ٹرک بھرا اور اسے وزیراعلیٰ ہاﺅس پھینکنے چل پڑا۔ وزیراعلیٰ ہاﺅس سے باہر اسے ڈرائیور سمیت گرفتار کرلیا گیا۔ ایک رات حوالات میں گزری۔ دوسرے روز ضمانت کا بندوبست ہوا تو رہائی ملی لیکن اب موصوف اسی کام میں جتے ہوئے ہیں۔ سبق یاد کرنے والے کو چھٹی کہاں ملتی ہے۔ مکتب عشق ہو یا سیاستدان کا میدان، دونوں کے ایک سے دستور ہیں۔ اب سنئے کراچی کے محمد عالمگیر خان کے بڑوں کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے۔ کوہستانی مٹی کا دم خم اس میں موجود ہے۔ خون کی لالی کچھ نسلوں تک ضرور چلتی ہے۔ اقراءیونیورسٹی میں ایم بی اے کے طالب ہیں۔ عمران خان کے ڈی چوک میں دھرنے کے 126 دن اسلام آباد میں گزارے۔ انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کراچی اور سندھ کے صدر ہے۔ پھر انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی جنرل سیکرٹری بھی۔ تحریک انصاف میں بڑے فعال ہیں۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ جہانگیر ترین سے پوچھا گیا آپ مختلف ادوار میں میاں نواز شریف، چوہدری پرویز الٰہی، پرویز مشرف اور اب عمران خان کے معتمد ترین ساتھی بنے ہوئے ہیں، اس محبوبیت کی آخر وجہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب میں کیا فرمایا۔ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کچھ سوال ہی جواب سے لبریز ہوتے ہیں۔ کیا یہ لوگ تبدیلی کی راہ کے مسافر ہیں؟ تبدیلی کیلئے محمد عالمگیر خان جیسے نوجوانوں کی طرف دیکھنا پڑے گا۔
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
میری نگاہ نہیں سوئے کوفہ بغداد