خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں جلوہ گرہونے کی ڈھیروں امیدوں کے ساتھ پاکستان لوٹنے والے پرویز مشرف کے گزشتہ تین سالوں کو اِس ایک جملے میں سمویا جاسکتا ہے کہ ”20لاکھ فیس بک فینز اکٹھے ہونے پر عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی جانب سے والہانہ اور تاریخی استقبال کی امید میں 24مارچ 2013ءکو کراچی ایئرپورٹ پر اُترنے والے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف عدالتوں میں مزید خوار ہونے کے خوف سے تین سال پورے کیے بغیر ہی بیرون ملک ”کوئیک مارچ“ کرنے میں کامیاب ہوگئے“۔ پرویز مشرف کے نو سالہ دور اقتدار کی طرح اُن کا جلاوطنی کے بعد پاکستان آکر تین سال قیام کا عرصہ بھی تاریخ اور سیاست کے طالب علموں کیلئے کوئی کم دلچسپی کا حامل نہیں ہے۔ بہت سے مبصرین جس طرح سابق صدر کی ملک واپسی کو ایک غلط فیصلہ قرار دیتے ہیں، اُسی طرح عدالتوں سے بچ کر اُن کے ملک سے نکل جانے پر بھی تنقید کررہے ہیں۔ یوں تو جنرل مشرف کے 9 سالہ دور حکومت کی مانند سابق صدر کا گزشتہ تین سال تک پاکستان میں قیام کرنے کا عرصہ بھی تنقید اور تنازعات میں گھرا نظر آتا ہے لیکن اس کے باوجود اپنے دور حکومت میں پرویز مشرف کی جانب سے کیے جانے والے متنازعہ اقدامات کی فہرست اِن تنازعات سے کہیں زیادہ طویل ہے۔ کیونکہ اگر اپنے دور حکومت میں پرویز مشرف کی جانب سے وہ متنازعہ اقدامات نہ کیے جاتے تو سابق صدر کو وہ کچھ نہ دیکھنا پڑتا جو وہ اقتدار کے ایوانوں سے نکلنے کے بعد گزشتہ نو سال سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف 1999ءمیں اُس وقت برسراقتدار آئے جب ایک جانب افغانستان میں سوویت یونین کے بعد امریکہ کی مداخلت نے جنگجووں کو سیخ پا کررکھا تھا تو دوسری جانب ملک میں مذہبی انتہاپسندی اور شدت پسندئی کی فصل پک کر پوری طرح تیار ہوچکی تھی۔مذہبی حلقوں سمیت مختلف طبقات افغانستان میں نیٹو کی مداخلت کے دوران امریکہ کا صف اول کے اتحادی بننے پرپہلے ہی مشرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے کھنچے ہوئے تھے، اِس ماحول میں پرویز مشرف نے اعتدال پسندی کا نعرہ لگایا لیکن اعتدال پسندی کی آڑ میں ملک میں روشن خیالی اور آزاد خیالی(لبرلزم) کو فروغ دیا جانے لگا۔ پرویز مشرف کے زیر سایہ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی حکومت نے تو ثقافت کے نام پر پتنگ بازی میں حصہ لینے کے علاوہ ملک میں پہلی مرتبہ مخلوط میراتھن ریس کا انعقاد بھی کر ڈالا۔ پاکستانیوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا جانے لگا تو اِسی دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا اغوا اور امریکہ کو حوالگی کا معاملہ سامنے آگیا، جس نے مشرف حکومت کے خلاف عوام کے غم و غصے کو اُبھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسرئیل سے درپردہ روابط اور اعتماد سازی کے نام پر بھارت سے دوستی اور ثقافتی روابط کے فروغ کی کوششیں بھی پرویز مشرف کے خلاف گئیں۔ایک جانب حدود آرڈیننس کو ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دے کر آرڈینیس میں ترمیم کی تیاریاں شروع کردیں تو دوسری جانب جوہری پروگرام کے بانی ڈاکٹر عبد القدیر خان کی بے توقیری اور طویل نظر بندی کا سلسلہ شروع کردیا گیا، جسے عوام نے بالکل بھی پسند نہ کیا۔اس کے علاوہ ایک طرف جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر فوجی آپریشن کیاگیا، جس کے نتیجے میں ملک میںخودکش حملوں اور بم دھماکوں کا آغاز ہوا تو دوسری جانب بلوچستان آپریشن کے دوران نواب اکبر بگٹی کے قتل نے پہلے سے تپے ہوئے بلوچوں کو مزید برافروختہ کردیا۔ پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے ایک اور متنازعہ فیصلہ قومی مفاہمتی آرڈینینس (این آر او) لاکر کیا، اِس مفاہمتی آرڈیننس کے ذریعے سیاستدانوں کے جرم معاف کردیے گئے اور بینظیر بھٹو سمیت جلاوطن دیگر سیاستدانوں کی واپسی کی راہ ہموار ہوئی۔ ”ایک زرداری“ کے صدر بن کر ”سب پر بھاری“ ہونے کی راہ بھی اِسی متنازعہ این آر او کے ذریعے ہی ہموار ہوئی۔2007ءمیں طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس آنے ولی سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کا فائرنگ اور خودکش دھماکے میں مارے جانے کا معاملہ بھی سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت کیلئے اچھا خاصہ دھچکا ثابت ہوا۔
غلطی پر غلطی کیے جانے اور ایک کے بعد دوسرے متنازع فیصلوں اور اقدامات کے باوجود سابق صدر پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج 2007ءکے اوائل تک نصف النہار پر تھا اور دور دور تک پرویز مشرف کے اقتدار کا کوئی خطرہ محسوس نہیں ہورہا تھا،لیکن پھر حالات کا دھارا اُنہیں اُس سمت بہاکر لے گیا، جہاں ہر حاکم وقت اپنی ہر تدبیر کو محکم سمجھنے لگتا ہے اور پھر وہ ظالم وقت آن پہنچتا ہے جب خود کو ”کُل“ سمجھنے والے حاکم کی شمشیر وقت کے ظالم دھارے کو بھی کاٹنے کے قابل نہیں رہتی۔ پرویز مشرف پر یہ وقت 9مارچ 2007ءکو اُس وقت آیا، جب انہوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کرنے کی غلطی کی۔ اگرچہ پرویز مشرف آج بھی ”این آر او“ کو اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہیں، حالانکہ اُن کی سب سے بڑی غلطی این آر او ہرگز نہ تھی بلکہ انہوں نے اصل غلطی حالات کی نزاکت کو سمجھے بغیر عدلیہ سے چھیڑ چھاڑ شروع کرکے کی۔ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ءکو رئیس عسکریہ کی حیثیت سے یہ غلطی دہرا کر دوسری مرتبہ آئین شکنی کا ارتکاب کیا۔ لیکن ایمرجنسی پلس جیسے اقدامات کے باوجود حالات بہتر ہونے کی بجائے بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور نئی حکومت کے قیام کے بعد بالآخر پرویز مشرف کو 18 اگست 2008ءکو قوم سے خطاب میں اپنے مستعفی ہو نے کا اعلان کرکے اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہونا پڑا۔ آصف علی زرداری کے صدر بننے کے بعد ملک میں حالات سازگار نہ رہے توپرویز مشرف نے برطانیہ میں خودساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔
قارئین کرام!!جس طرح سابق صدر پرویز مشرف کا دور حکومت ماضی بن چکا ہے، بالکل اُسی طرح سابق صدر کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کو بھی اب ماضی کا حصہ سمجھا جائے تو بہتر ہوگا، کیونکہ یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔ جولوگ سمجھتے ہیں کہ پرویز مشرف اپنے خلاف دائر مقدمات کا سامنا کرنے کیلئے وطن واپس آئیں گے، انہیں احمقوں کی جنت سے نکالنے بھی اتنا ہی وقت لگے گا جتنا وقت پرویز مشرف کو پاکستان سے واپس جلاوطن ہونے میں لگا۔ مختلف سیاسی جماعتیں جنرل پرویز مشرف کی رخصتی پر جس طرح کے چاہیں بیانات دیںاور پرویز مشرف کے خلاف بیانات داغ داغ کر خود کو جتنا مرضی جمہوریت پسند ثابت کرنے کی کوشش کریں، لیکن آج کا سب سے بڑا سچ یہی ہے کہ پرویز مشرف کی واپسی پر سب خوش ہیں اور سبھی نے سکھ کا سانس بھی لیا ہے۔ کیا اسٹیبلشمنٹ اور کیا سیاستدان! کیا حکومت اور کیا اپوزیشن! حقیقت یہی ہے کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے ملک سے نکل جانے کے معاملے پر سب ایک پیج پر تھے!